عدت نکاح کیس: عمران خان، بشریٰ بی بی کی سزا کیخلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت ملتوی

9  جولائی  2024

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

تفصیلات کے مطابق اپیلوں پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے کی،عمران خان، بشریٰ بی بی کے وکلا سلمان صفدر، عثمان گل، خالد یوسف چوہدری و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے نظر ثانی درخواست خارج کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب سب کلیئر ہوچکا ہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح طور پر پرانی ٹائم لائن برقرار رکھی ہے۔

اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت میں جو درخواست آئی ہے وہ معاملہ ابھی زیر التوا ہے ، ہونا وہی ہے جو ہائی کورٹ چاہے گا، وکیل نے بتایا کہ اگر ان کی کوئی حقیقی وجہ ہوتی سماعت ملتوی کرنے کی تو ہم خود اس کی تائید کرتے، ان کے پاس درست راستہ یہ تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے، اگر اسلام آباد ہائی کورٹ سے کوئی میسج آنا تھا تو وہ واضح طور پر آگیا ہے، ان کی درخواست میں سیشن جج سے دس دن کی غیر حاضری کا مؤقف اپنا کر چھٹی لی گئی ہے، شکایت کنندہ کے پاس کسی اور کونسل کو کھڑا کرنے کا آپشن ہوتا ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اب 2 فیصلے آچکے ہیں، دریافت کیا کہ آپ نے صرف اسلام آباد کے وکلا کو ریلیف دینا ہے کیا ؟

اس پر جج افضل مجوکا نے بتایا کہ مجھے آدھے گھنٹے کے وقت دیں، ڈیڑھ بجے تک سن لیتے ہیں، خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف کے معاون وکیل نے کہا کہ نظر ثانی اور زیر التوا کی درخواستیں الگ الگ ہیں، جنرل التوا کی درخواست سیشن جج کی عدالت میں دی جاتی ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ آفس سے کال آگئی ہے کہ دو اپیلیں خارج کردی گئی ہیں ، مجھے کال پر یہ کہا گیا اس درخواست کے حوالے سے کچھ دیر میں آگاہ کیا جائے گا اس لیے ڈیڑھ بجے کا وقت رکھ لیتے ہیں۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکلا نے زاہد آصف ایڈوکیٹ کے معاون وکیل کو بولنے پر اعتراض اٹھادیا۔

معاون وکیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے کل ہی بتایا تھا کہ اس التوا کی درخواست کے حوالے سے ہائی کورٹ کو آگاہ کردیا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈیڑھ بجے تک کا وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جج افضل مجوکا نے سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنے دلائل کا آغاز کریں، ہم کیس سنیں گے۔

اس کے بعد سابق خاتون اول کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ پوائنٹس پر عثمان ریاض گل اور کچھ پر خدیجہ صدیقی دلائل دیں گی، میں سب سے پہلے سیاسی انتقام کے حوالے سے سے بات کروں گا، بشریٰ بی بی عمران خان کی بیوی ہیں اور عمران خان سابق وزیر اعظم ہیں، بشریٰ بی بی بیوی ہونے کی وجہ سے سیاسی انتقام کا سامنا کررہی ہیں ، عمران خان کے خلاف جو انتقامی کارروائیاں ہوئیں ان میں یہ ایک اہم کیس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس سیریز میں چل رہے ہیں، سارے کیسز صرف اور صرف سیاسی انتقام کے علاوہ کچھ نہیں ہیں، اس کیس کے علاوہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف کوئی بھی کیس نہیں ہے۔

سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ خواتین کا معاملہ خواتین جانتی ہیں ، میری استدعا ہے کہ کچھ خواتین باہر کھڑی ہیں ان کو اندر آنے کی اجازت دی جائے۔

اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ میں نے کسی کو نہیں روکا ہوا ، اگر کوئی ایسی بات ہے تو یہ انتظامیہ کے پاس اختیار ہے۔

بعد ازاں وکیل نے کہا کہ دلائل میں میرا دوسرا نقظہ عوامی تاثر ہے م عدت میں نکاح کو جرم میں شامل نہیں کیا جاتا ہے ،پہلی بار میں ایک چیز کہنا چاہتا ہوں کہ سب مقدمات میں سے صرف عدت والا کیس ہے جو کہ بہت بیہودہ ہے، ہم نے دیکھا کہ ریکوری کیسز میں ملزم کی جگہ بھائی ، باپ وغیرہ کو اٹھا لیا جاتا ہے، اس کا مقصد صرف اور صرف جذباتی، اخلاقی طور پر کمزور کرنا ہوتا ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ آپ کے سامنے یہ بھی کنڈکٹ ہونا چاہیے کہ جب سزا دلانی ہو تو رات کے وقت بھی عدالت لگی رہی، اب دس دس دن دور بھاگا جا رہا ہے، خاص طور پر اس کیس میں قانون کا مذاق اڑایا گیا ہے، ملک میں شادی اور طلاق روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے مگر ایسا کیس کبھی بھی نہیں آیا، اجمل قصاب ، بینظیر کیس ، ممتاز قادری کیس جیل میں ہوتے رہے مگر ایسا کیس کبھی نہیں دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میاں بیوی کا کیس اگر تھانے میں بھی آجائے تو اسے ذاتی طور پر حل کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے ، مگر ٹرائل کرنے والے جج صاحب نے رات گئے تک عدالت لگائے رکھی، ایسے کیسز میں پراسیکیوشن نے صرف ملکی خزانہ ضائع کیا ہے ، سابق وزیر اعظم کے خلاف سب سے پہلے کرپشن ڈھونڈی جاتی ہے وہ نہیں ملتی تو اس کیس کی طرف آتے ہیں، ایک بات کی تسلی تو ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی بھی دوسری کرپشن وغیرہ نہیں ملی ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ پہلی شکایت حنیف نامی بندے نے کی ، اس کے بعد خاور مانیکا نے شکایت درج کروائی، حنیف نے کہا کہ فراڈ اور جعل سازی ہوئی جس پر رضوان عباسی صاحب نے درستگی کرائی کہ آپ کے ساتھ نہیں ہوئی، دونوں شکایات میں محمد حنیف اور خاور مانیکا کے وکیل اور گواہ ایک ہی تھے، جرح کے دوران دو گواہان نے اس چیز کو قبول بھی کیا کہ وہ پہلے والی درخواست میں بھی تھے۔

وکیل نے بتایا کہ شکایت میں 496 اور 496 بی کا ذکر کیا گیا، آدھا الزام 496 بی کی وجہ سے جھوٹا ثابت ہوجاتا ہے ، سیکشن 496 کے تحت سزا غلط دی گئی ہے ، اپیل کیوں سننی جب جرم ہی نہیں لگتا؟ فراڈ اور دھوکا ہوجائے تو میاں بیوی میں سے ایک ملزم اور ایک مدعی ہوگا، اس کیس میں میاں بیوی دونوں ملزم بنے ہوئے تھے ، کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے دوست کے ساتھ دھوکا ہوگیا؟ میں یہ کرسکتا ہوں کہ کسی کو ورغلا کر دھوکا دے کر شادی کروں؟ فراڈ میں ایک پارٹی دوسری پارٹی پر کیس کرتی ہے مگر یہاں پر کوئی حنیف کھڑا ہوجاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیا یہ جرم قابل قبول ہے؟ کس کے ساتھ ہوا ہے یہ فراڈ؟ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ساتھ ؟ عمران خان اور بشریٰ بی بی شادی شدہ زندگی خوشی سے جی رہے ہیں۔

بشریٰ بی بی کے وکیل نے بتایا کہ قانون کہتا ہے کہ کوئی دھوکا اور فراڈ کرتا ہے تو 7 سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے، خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کی 1989 میں شادی ہوئی، مجھے نکاح نامہ ہی نہیں ملا،یہ تو دستاویزات کا کیس ہے، آپ کو دن گننے میں لگا دیا لیکن مدعی نے اپنے دن تو بتائے ہی نہیں کب کیا ہوا؟ یہ نہیں بتایا کہ کب عمران خان کو دیکھا اور کب گھر سے نکالا مجھے تاریخ تو بتائیں؟ فرح گوگی کو نکال دیا گیا، تین اور بندوں کو بھی کیس سے نکال دیا گیا اس کے بعد آدھا کیس ہی ختم ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 7، 8 واقعات بتا دیے، اس کی ٹائم لائن نہیں دی، سال تک نہیں بتایا کہ کب کیا ہوا؟ شکایت کنندہ کا موقف عدت کا دورانیہ پورا ہونے کا نہیں رجوع کے حق کا ہے، کہہ رہے ہیں آدھے دل سے طلاق دے دی لیکن ادھر تو تین مرتبہ ہے، کام تو پورا ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ خاور مانیکا نے نہیں بتایا کہ کس تاریخ کو عمران خان کو گھر سے نکالا اور کس کے سامنے نکالا؟ عمران خان خاور مانیکا کے گھر آتا رہا لیکن کب کب آتا رہا کچھ نہیں بتایا گیا، خاور مانیکا نے صرف لیٹ آورز میں عمران خان کی بشریٰ بی بی کو کال کا بیان دیا مگر اس میں بھی کوئی وقت نہیں بتایا گیا، ٹائم لائن کا کیس ہے مگر واقعات میں کوئی تاریخ، دن، وقت، سال نہیں بتایا گیا، پوری فیملی میں خاور مانیکا کے علاوہ پانچ بچے بھی ہیں، کوئی عدالت میں پیش نہیں ہوا، عون چوہدری تو خاور مانیکا کے بچے نہیں ہیں۔

اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ 3 بج کر 29 منٹ تک عدالتی اوقات میں ہی کیس سنوں گا۔

سلمان صفدر نے استدعا کی کہ دوسرے جج نے کیوں دیر تک کیس سنا، اس نقطے پر آپ بری کر دیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خاور مانیکا کو ہزار دن بعد خیال آیا کہ میرا حق مارا گیا ، خاور مانیکا نے اپنے بیان میں کسی بھی واقعے کی ٹائم لائن نہیں بتائی ، یہ 16 سال کی بچی کا کیس نہیں ہے ، 342 کے بیان میں یہ عمر کے حوالے سے سوال ہی نہیں ہے ، اس مقدمے کا ڈائریکٹ تعلق آپ کی عمر سے ہے کہ آپ جوان یا بچوں کی ماں ہیں ، شکایت کنندہ کی جانب سے مقدمے کے اندراج میں تاخیر کرنا مقدمے کو کمزور کرتا ہے ، 2 ہزار دن خاموشی نہیں کی جاسکتی ہے، میں اس چیز کو واضح کروں گا۔

وکیل نے بتایا کہ اتنے بڑے کیس میں کیا کوئی میڈیکل ایکسپرٹ بلایا گیا ؟ کہتے ہیں کہ میرے تعلقات خراب ہوئے مگر ٹائم لائن نہیں بتائی، پورے کا پورا کیس طلاق اور نکاح نامے پر کھڑا ہے ، طلاق نامے کی فوٹو کاپی پر سزا ہوتی ہے کیا ؟ طلاق نامے کے اوپر دن اور مہینے پر ٹیمپرنگ ہوئی ہے۔

اس موقع پر جج نے ریمارکس دیے کہ اگر اس کیس میں کوئی ججمنٹ دینا چاہتے تو دے دیں تاکہ پڑھ لوں ، بیرسٹر سلمان صفدر نے مختلف عدالتی فیصلے عدالت کو فراہم کردیے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں کل ایک گھنٹے میں خاص حصے پر دلائل دے دوں گا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved