بلوچستان میں حکومتی اتحاد کے 14 اراکین اسمبلی نے وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تحریک جمع کرادی ہے۔ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والے اراکین اسمبلی کا دعویٰ ہے کہ جام کما ل اکثریت کھوچکے ہیں، ان کے پاس 65 میں سے صرف 24 اراکین اسمبلی کی حمایت ہے، وزیراعلیٰ کی عزت اسی میں ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کی کارروائی سے قبل مستعفی ہو جائیں۔
تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والوں میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ظہور احمد بلیدی، عبدالرحمٰن کھیتران، جان محمد جمالی، محمد خان لہڑی، لالہ رشید، سکندرعمرانی، ماہ جبین، بشریٰ رند، لیلیٰ ترین اور بی این پی عوامی کے اسد بلوچ، بی بی مستورہ اور پی ٹی آئی کے نصیب اللہ مری و دیگر شامل ہیں۔
تحریک عدم اعتماد میں یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران وزیراعلیٰ جام کمال کے خراب طرز حکمرانی کے باعث بلوچستان میں شدید مایوسی، بدامنی، بے روزگاری اور اداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ اقتدار پر براجمان ہو کر صوبے کے تمام اہم معاملات کو مشاورت کے بغیر ذاتی طور پر چلارہے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے وفاقی حکومت کے ساتھ آئینی و بنیادی حقوق کے مسائل پر غیرسنجیدگی کا ثبوت دیا جس سے صوبے میں بجلی، گیس، پانی اور شدید معاشی بحران پیدا ہوا، لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں قائد ایوان کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ ایوان کی اکثریت کے حامل رکن اسمبلی کو قائد ایوان منتخب کیا جائے۔
وزیراعلیٰ جام کمال کا موقف
تحریک عدم اعتماد پر ردعمل میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر جام کمال کا کہنا ہے کہ انہیں پارٹی کی اکثریت اور تمام اتحادیوں کا مکمل اعتماد حاصل ہے، چند لوگوں کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دوں گا۔ مزید ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی رکنیت سے بھی استعفیٰ نہیں دے رہے نہ دیں گے۔