اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کمیشن کی جانب سے جبری گمشدہ ڈیکلیئر کئے (قرار دئیے) گئے افراد کے خاندانوں کو 50،50 لاکھ روپے دینے کا حکم دیا ہے۔
لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اخترکیانی کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ نے کی جس دوران درخواست گزار کے وکیل ایمان مزاری، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل، نمائندہ وزارت دفاع بریگیڈیئر (ر) فلک ناز ودیگر بھی عدالت پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کی درخواست پر آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے افسران کو شامل کیا، اپنےہی منتخب کردہ لوگوں پربھی آپ کو استثنیٰ چاہیے؟
جسٹس کیانی کے سوال پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا نام باہر آنے پر کسی کی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے، اس سے پہلے کئی واقعات میں کچھ افسران کو نشانہ بنتے دیکھا ہے، اس پر جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ کمیٹی ہم نے اسی وجہ سے تبدیل کی تھی کہ وہ یہاں ایک ایک کیس پر ہمیں بتائیں گے۔
دوران سماعت لاپتہ افراد کی وکیل ایمان مزاری نے دلائل دیے کہ 10جنوری کو اٹارنی جنرل نے اس عدالت میں بیان حلفی دیا تھاکہ کوئی بندہ لاپتا نہیں ہوگا مگر بلوچستان میں آج بھی بہت سارے لوگ لاپتا ہیں، جن لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے ان کا بتایا نہیں جارہا کہ کہاں پر ہیں؟ اگست کے مہینے سے لے کر اب تک 187 لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔
عدالت نے لاپتا افراد سےمتعلق ایڈیشنل اٹارنی جنرل کورپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کشمیر، افغانستان یاکسی جیل میں ہیں، زندہ ہیں یامردہ ہیں، بتاناریاست کی ذمہ داری ہے، ہمیں ایک طریقہ کاروضع کرنا ہوگا کہ لاپتا افراد کو کیسے بازیاب کرایا جائے۔
سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ لاپتا افراد کمیشن کی جانب سے جبری گمشدہ ڈیکلیئر کیے گئے افراد کے خاندانوں کے لیے 50،50 لاکھ روپے کے چیک لے کر آئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نمائندہ وزارت دفاع کو ہدایت کی کہ آپ کے سینئر آفیشلزکی جو کمیٹی بنی تھی وہ آئے اور عدالت کوسمجھائے، کمیٹی کو سننا ہمارے لیے بڑا اہم ہے، آپ نے جو کمیٹی بنائی ان کو کہہ دیں کہ یہاں آکر ہمیں سمجھائیں،آپ کی جمع کردہ رپورٹ کا کوئی فائدہ نہیں اسی لیے میں نے واپس کردی۔
جسٹس کیانی نے ریمارکس دیے کہ مجھےلاپتا افراد کمیشن سے شدید اختلاف ہے، وہ 20، 20 آرڈرز کرتے ہیں مگر اختیارات استعمال نہیں کرتے، لاپتا افرادکمیشن لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے، لکھاہوا ہے جبری گمشدگی ہوئی پھربھی آپ کےلوگ پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہیں کر رہے، مجھے سخت تکلیف ہوئی جو کمیشن کی رپورٹس میں نے پڑھی ہیں، لاپتا افرادکی بازیابی کمیشن کمیشن کی کوئی ضرورت نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر نے کہا کہ میرے آرڈر پر عمل ہوگا، اگر نہیں ہوگا تو پھر مجھے یہاں بیٹھنے کی ضرورت نہیں، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کروائی۔