خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں حریف قبائل کے درمیان مسلسل آٹھ روز سے جاری جھڑپوں کے دوران فائرنگ کے تازہ واقعات میں مزید 5 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے۔
ہسپتال کے ایک عہدیدار کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ آٹھویں بھی جاری رہا جس سے اب تک جھڑپوں میں مجموعی طور پر 46 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 96 افراد زخمی ہیں۔
پولیس اور ہسپتال ذرائع نے گزشتہ ہفتے ڈان کو بتایا تھا کہ ان جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا جب اپر کرم کے بوشہرہ قبائل نے احمد زئی قبائل کی زمینوں پر بنکرز بنانا شروع کر دیے تھے۔
ذرائع کے مطابق بدھ کو بالشخیل، سدہ، خر ویلی، پیوار، مقبل اور دیگر علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کرم ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال ( ڈی ایچ کیو) کے ڈاکٹر قیصر عباس بنگش نے ان تازہ جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
سابق وفاقی وزیر ساجد طوری نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مسلح جھڑپوں سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں پرامید ہے صورتحال جلد بہتر ہوجائے گی۔
دوسری جانب مجلس وحدت مسلمین ( ایم ڈبلیو ایم) کے پارلیمانی رہنما انجینئر حمید حسین نے امن و امان کے قیام میں ناکامی پر پاراچنار پریس کلب کے سامنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف احتجاج کیا۔
دریں اثنا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ایک روز قبل کہا تھا کہ صوبہ میں خاص طور پر جنوبی اضلاع میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ صوبہ کے جنوبی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد مزید چوکیوں کو پولیس کے حوالہ کیا جائے گا، تاہم اس سے قبل پولیس کی صلاحیتیوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ کرم کے قبائلی اضلاع میں جاری حالیہ تنازع کا تعلق کچھ گروپس سے ہے اور صوبائی حکومت اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ میر علی کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا اور مویشی مارکیٹ کی تعمیر نو کے بعد رہائشیوں کے حوالہ کیا جائے گا۔