پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جاری احتجاج کو ختم کرنے اور کارکنان کو منتشر ہوکر واپس جانے کی ہدایت کردی۔
تحریک انصاف کے رہنما شوکت بسرا نے شہریار ریاض کے ہمراہ میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی میں احتجاج کیلیے نکلنے والے کارکنان پر شیلنگ کی گئی اور ہماری لاشیں گرائی گئیں مگر ہم اپنے قائد کی کال پر یہاں جمع ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے رابطہ کر کے احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کردی ہے، جس کے اب کارکنان واپس چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کارکنان کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں اور پُرامن طور پر منتشر ہوکر گھروں کو روانہ ہوجائیں۔
اس سے قبل راولپنڈی کے کمیٹی چوک سمیت موٹروے اور دیگر مقامات پر پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان سارا دن وقفے وقفے سے جھڑپیں چلتی رہیں، پی ٹی آئی کی رہنما عالیہ حمزہ اور دیگر کارکنان لیاقت باغ پہنچے تو پولیس نے شدید شیلنگ کر کے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔
اس سے قبل دن میں مختلف اوقات کے دوران تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے شیلنگ پر پولیس کی جانب جوابی پتھراؤ بھی کیا گیا جس پر پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ رکاوٹیں کھڑی ہونے کے باوجود عوام بڑی تعداد میں باہر نکلے اور عمران خان سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ علیمہ خان سمیت دیگر رہنماؤں کی ریلیوں پر بھی پولیس کی جانب سے شیلنگ کی گئی جبکہ پی ٹی آئی کارکنوں کی پیش قدمی کو روکا گیا۔
راولپنڈی میں پولیس نے پی ٹی آئی کی رہنما اور ٹکٹ ہولڈر سیمابیہ طاہر سمیت دیگر کارکنان کو گرفتار کیا جبکہ خیبرپختونخوا سے آنے والے قافلوں کو روکنے کیلیے اٹک کے پل کو مکمل سیل کیا گیا جس کے باعث وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے بھی پنڈی پہنچے بغیر اٹک کے پُل پر احتجاج ختم کر کے کارکنوں کو واپس جانے کی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ کے اعلان پر تحریک انصاف کے کارکنان مشتعل ہوئے اور انہوں نے وزیراعلیٰ کی گاڑی کا گھیراؤ کر کے ان سے پیدل ساتھ چلنے کا مطالبہ کیا جس کے دوران وزیراعلیٰ کارکنان پر مشتعل ہوئے اور انہوں نے نازیبا زبان کا استعمال بھی کیا۔
پولیس کا صحافیوں پر تشدد اور گرفتاریاں
راولپنڈی پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنان کے ساتھ احتجاج کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ موبائل فون چھین کر انہیں حراست میں لیا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں نجی ٹی وی کے رپورٹر کو پولیس اہلکاروں نے زدوکوب کیا تھا۔
پولیس نے مری روڈ اور چوراہوں کے دونوں سائیڈز کے فٹ پاتھوں روڈز کے درمیان ڈیوائڈرز پر بھی کنٹینرز لگا کر راستے بند کیے، اسکے علاوہ شہر بھر میں 15 ہزار کنٹینرز ہیوی ٹرالے ٹرک لگائے گئے تھے۔
شرکا کی پیش قدمی کو روکنے کیلیے ضلع کے 32 تھانوں کی پولیس ،اضافی نفری سہالہ ٹریننگ کالج کے زیر تربیت رنگروٹ کانسٹیبلری کے ساتھ رینجرز کو بھی تعینات کیا گیا۔ احتجاج کے پیش نظر میٹرو بس سروس، تعلیمی ادارے مکمل بند رہے جبکہ مری روڈ کے اطراف میں سارا دن انٹرنیٹ سروس بھی بند رہی۔ انتظامیہ کے اقدامات کی وجہ سے اسپتالوں میں ایمبولینسوں کا راستہ داخلہ بھی بند ہوا جس کے باعث مریض رُل گئے جبکہ شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب پولیس نے رات بھر سرگرم کارکنوں کے گھروں میں دو سو سے زائد چھاپے مارے مگر کوئی کارکن پولیس کے ہتھے نہیں چڑھا سخت ترین راستوں کی بندش سے کچہری سرکاری دفاتر کمشنر ڈپٹی کمشنر دفاتر کا عملہ بھی نہیں پہنچا تمام سرکاری دفاتر میں بھی غیر اعلانیہ چھٹی دی گئی۔