مرتے دم تک لڑیں گے، گزشتہ روز سے غائب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی اچانک صوبائی اسمبلی آمد

6  اکتوبر‬‮  2024

گزشتہ روز سے روپوش وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اچانک خیبر پختونخوا اسمبلی پہنچ گئے جب کہ کچھ دیر قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسد قیصر نے 24 کے اندر ان کو رہا کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا اور ان کی عدم رہائی کی صورت میں ملک بھر میں احتجاج کی دھمکی دی تھی۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی مبینہ گمشدگی کے حوالے سے طلب ہنگامی اجلاس 5 گھنٹے کی تاخیر کے بعد شروع ہوا جس میں وزیر اعلیٰ کے لاپتا ہونے اور خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد پر دھاوا بولنے کے خلاف قرار داد پیش کردی گئی۔

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور صوبائی اسمبلی پہنچ گئے جب کہ ان کی پارٹی نے ان کی گرفتاری سے متعلق متضاد بیانات جاری کیے تھے اور حکومت نے اسلام آباد میں احتجاج کے بعد ان کی گرفتاری کی تردید کی تھی۔

اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان قوم کی جنگ لڑ رہے ہیں، مجھے اپنے ہاؤس اور ارکان پر فخر ہے، عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ان کا کہنا عوام کو سلام پیش کرتا ہوں، ہمارے لوگوں کو توڑا نہ جاتا تو اسمبلی میں ایک بھی اپوزیشن کا رکن نہ ہوتا، باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہم پر حملہ کیاگیا، ہماری پارٹی کا نشان واپس لیا گیا، ہمارے دو تہائی اکثریت والی حکومت چھینی گئی۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہماری پارٹی پر حملے کرنے والے روز بے نقاب ہورہے ہیں، تحریک انصاف کو سوا 4کروڑ ووٹ ملے، ہم سے حکومت چھین لی گئی اب یہ سلسلہ جاری ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہمیں ملک میں جلسے جلوس کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی؟ پی ٹی آئی کے دور میں بلاول نے مارچ کیا، کسی نے نہیں روکا، پی ٹی آئی کارکنان کو روکنے کیلئے تشدد کیاگیا، یہاں وہ سب بیٹھے ہیں جنہوں نے برے وقت میں پارٹی نہیں چھوڑی۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس طاقت ہے ہمارے پاس بھی ہے، اسلام آباد پہنچنے کے بعد آمنے سامنے تصادم سے کا خطرہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ برے وقت میں چھوڑنے والا بزدل ہے، جب پارٹی چھوڑ دی تو نو مئی نہیں ہے، آئی جی اسلام آباد نے کے پی ہاوس میں توڑ پھوڑ کی، میری سرکاری گاڑی کو توڑا گیا، آ ئی جی اسلام آباد آپ اتنے نیچے نا جاؤ۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ کل پوری رات کے پی ہاوس میں تھا، یہ آپ کی کارکردگی ہے، آپ نے چار چھاپے مارے، میرے گارڈز کو مارا اور لوٹا بھی گیا، یہ سرکاری غنڈہ ہے اور اس فلور پر معافی مانگے ورنہ ایف آئی آر ہوگی۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ بار بار کہتا رہا ہوں اپنی اصلاح کرو،مولانا صاب نے بھی کہہ دیا کے عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے مجھ سے بھی بات ہوئی تھی، کیا عمران خان کی سوچ کو آپ ختم کر سکتے ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جنگ جاری ہے، مرت دم تک یہ جنگ لڑیں گے، میں پھر آوں گا، آپ کسی کی بہن، کسی کے بچوں کو اٹھا رہے ہیں، آپ نے بھی قبر میں جانا ہے، کب تک رہو گے، اس ملک کے آئین کا سوچو اس ملک کا سوچو۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کی صدارت اسپیکر بابر سلیم سواتی نے کی جب کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اجلاس کی طلبی کے جاری مراسلہ میں کہا گیا کہ اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اغوا ہونے کے معاملے پر بحث کی جائے گی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں خیبر پختونخوا ہاؤس میں خواتین اور بچوں کے ساتھ بدتمیزی کے معاملے کو بھی زیر بحث لایا جائے گا۔

اجلاس سے قبل پی ٹی آئی کے کارکن خیبر پختونخوا اسمبلی کے احاطے میں داخل ہوگئے، داخل ہونے والوں میں خواتین ورکرز بھی شامل ہیں جب کہ کارکنوں نے پارٹی پرچم بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر تحریک انصاف کے احتجاج کی وجہ سے خیبر روڈ کو ٹریفک کی آمدورفت کے لیے بند کردیا گیا جب کہ داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے۔

صوبائی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو غائب کیا جائے، 24 کے اندر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو رہا نہ کرنے پورے ملک میں احتجاج کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کل احتجاج میں میڈیا پر تشدد کی مذمت کرتے ہیں، خیبرپختونخوا ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی گئی،کل جو ہوا اس پر احتجاج کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فارم 47 کی پیدا وار کو قانون سازی کا کوئی حق نہیں ہے، احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، ہم پرامن جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، اراکین قومی اسمبلی کو پریشر میں نہ لایاجائے، فیصلہ کیا ہے کہ قانون سازی اور اسٹیڈنگ کمیٹی میں پیش نہیں ہوں گے۔

اسد قیصر نے کہا کہ جماعت اسلامی کے اسرائیلی مظالم کےخلاف احتجاج کی حمایت کرتے ہیں، اگر اسرائیل کے ظلم پر کوئی سیشن ہوا تو اس میں شرکت کریں گے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس اسپیکر بابر سلیم سواتی کی زیر صدارت پانچ گھنٹے کی تایخ سے شروع ہوا، اجلاس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی مبینہ گمشدگی اور کے پی ہاوس پر دھاوے کیخلاف خیبر پختونخوا اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی۔

قراداد صوبائی وزیر قانون افتاب عالم نے پیش کی جسے بھاری اکثریت سے پاس کرلیا گیا، قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ اسپیکر تمام اداروں سے وزیر اعلیٰ کی مبینہ گمشدگی سے متعلق رپورٹ طلب کریں۔

اس میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ کی گمشدگی پر کسی قسم کی خط وکتابت کا نہ ہونا چیف سیکریٹری اور آئی جی کی کوتاہی ہے، وفاقی وزیر داخلہ اور گورنر خیبرپختونخوا آئین کی بحالی کے بجائے منفی اقدامات میں مصروف عمل ہیں، اسپیکر تمام ادارجات بشمول انٹیلیجنس ایجنسی سے رپورٹ طلب کریں، اسپیکر تمام قانونی اقدامات بروئے کار لاتے ہو ایوان کو اعتماد میں لیں۔

اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی نے آئی جی پولیس، چیف سیکریٹری اور پرنسپل سیکرٹری کو کل طلب کرلیا۔

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ روز سے پارٹی رہنماؤں اور اہلخانہ کا علی امین گنڈاپور سے رابطہ نہیں ہورہا۔

پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو اغوا اور گرفتار کر لیا گیا ہے۔

دوسری جانب سرکاری ذرائع نےوزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی گرفتاری کی خبروں کی تردید کردی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے احتجاج کے پیش نظر دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے راستوں اور موبائل فون سروسز کی بندش کی وجہ سے جڑواں شہروں میں معمولات زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئے۔

ہفتہ کے روز پی ٹی آئی کے مارچ کرنے والے ہزاروں کارکن وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے اور اس دوران دارالحکومت میں شدید بارش کے دوران پی ٹی آئی اور اسلام آباد انتظامیہ کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں پولیس نے سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا۔

علی امین گنڈا پور کی زیر قیادت چھ سے 8 ہزار کارکنوں پر مشتمل قافلہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد ٹیکسلا کے راستے اسلام آباد میں داخل ہوا اور جناح ایونیو پر واقع چائنا چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

چائنا چوک پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کچھ دیر کے لیے نمودار ہوئے تھے اور اس کے بعد پختونخوا ہاؤس روانہ ہو گئے جس کے بعد مظاہرین ایکسپریس چوک کی طرف بڑھ گئے تھے اور انہیں روکنے کے لیے پولیس نے ایک بار پھر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔

وفاقی حکومت نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کو دارالحکومت پر چڑھائی کرنے پر خبردار کیا تھا کہ انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے علی امین گنڈا پور کو پرتشدد واقعات کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کارکنوں سے جھڑپوں میں 80 کے قریب پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے جھڑپوں کے بعد تقریباً 600 مظاہرین کو دارالحکومت سے حراست میں لے کر ان کے خلاف شہر کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج کیے ہیں۔

پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ ان مظاہرین میں 100 افغان شہری بھی شامل ہیں تاہم پولیس کے پاس مزید مظاہرین کو حراست میں لینے کے لیے جگہ کم پڑ رہی ہے۔

اس کے بعد مقامی عدالت نے شراب اور اسلحے کی برآمدگی سے متعلق کیس میں ’متعدد غیر حاضریوں‘ کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے اور پولیس کو انہیں 12 اکتوبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی حکم کے بعد پولیس اور رینجرز کی نفری نے اسلام آباد میں واقع پختونخوا ہاؤس پہنچ کر اسے گھیرے میں لے لیا تھا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی غیر تصدیق شدہ ویڈیوز میں پولیس کو پختونخوا ہاؤس میں داخل اور اس کے مرکزی دروازے کا کنٹرول سنبھالتے دیکھا جا سکتا تھا۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved