عالمی بینک کی جانب سے کنٹری پارٹنر شپ اسٹریٹیجی (سی پی ایس) کے تحت پاکستان کو آئندہ 5 سال تک سالانہ 2 ارب ڈالر ملنے کا امکان ہے۔
نجی جریدے کی رپورٹ کے مطابق اس بات کا عندیہ منگل کو پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسین کی قیادت میں ایک وفد نے صحافیوں سے گفتگو میں دیا۔
وفد نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد بلوچستان میں صرف 104بینک اکاؤنٹ کھلوائے گئے جبکہ 60 ارب روپے کے انٹیگریٹڈ فلڈ ریزیلئنس اینڈ اڈیپٹیشن پروجیکٹ میں ڈھائی لاکھ سے 2 لاکھ 80 ہزار بینک اکاؤنٹس کھولے جانے کا تخمینہ لگایا گیاتھا۔
ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان کو انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اسسٹنس (آئی ڈی اے)کے تحت رعایتی قرض دینے سے متعلق ایک سوال پر ناجی بن حسائن نے کہا کہ ان کے پاس اگلے سی پی ایف کے لیے مختص رقم کے بارے میں درست معلومات نہیں ہیں، جسے دسمبر میں حتمی شکل دی جائے گی لیکن امید ہے کہ پاکستان کو ملنے والی امداد 2022سے 2026 تک جاری رہنے والے موجودہ سی پی ایف کی سطح پربرقرار رہے گی۔
عالمی بینک 12 ارب ڈالر کی 5 سالہ جاری سی پی ایف اسٹرٹیجی کے تحت پاکستان کو سالانہ 2 ارب ڈالر فراہم کر رہا ہے، جس میں اس کے عالمی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی (آئی بی آر ڈی)کے تحت درمیانی اورکم آمدنی والے ممالک کی حکومتوں کے لیے تجارتی قرضے بھی شامل ہیں۔
ناجی بن حسائن نے کہا کہ کئی ممالک کومشکل صورتحال کا سامنا ہے اور عالمی بینک کی امداد معنی رکھتی ہے مگر عالمی بینک نے سی پی ایس 2025-30 کے لیے 6 ترجیحات طےکی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس فہرست میں بچوں میں غذائی قلت کے مسئلے کاحل سرفہرست ہے، جس کے بعد اسکول سے محروم بچوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تعلیم اور ماحولیات میں بہتری کے لیے زراعت اور پانی کےمسائل کا حل شامل ہے۔
عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ دیگر ترجیحات میں ڈیکاربونائزیشن، خاص طور پر پنجاب میں ہائیڈرو الیکٹرک پاور اور ہوا کے معیار میں بہتری، اس کے بعد میکرو اکنامک استحکام اور مالیاتی شمولیت کے لیے مالی اصلاحات اور پھر نجی شعبے کی توسیع کے لیے کاروباری ماحول کو بہتر بنانا شامل ہیں۔
سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے فنڈز کے وعدوں پر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی جانب سے کی گئی حالیہ تنقید سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اتفاق کیا کہ اس طرح کی قدرتی آفات میں مختلف ممالک کی فنڈنگ کی ضروریات بہت زیادہ ہیں اور بحالی کے لیے فوری طور پر خصوصی فنڈنگ کے ذرائع محدود ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ کم آمدنی والے ممالک کو فوری فراہمی کے لیے رعایتی فنڈز دستیاب ہونے چاہئیں اور صحت، تعلیم اور سماجی شعبے میں پہلے سے کی گئی فنڈنگ کو اس میں شمار نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ پاکستان کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ابتدائی تخمینے ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے اداروں جیسے عالمی شراکت داروں کے جائزے میں کم و بیش درست پائے گئے۔
عالمی بینک کے وفد نے سندھ میں سیلاب کےبعد شروع کیے جانے 1.3ارب ڈالر کے منصوبوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا ہے تو وہیں 2022 کے سیلاب سے دوسرے سب سے زیادہ متاثر صوبہ بلوچستان میں صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
تاہم عالمی بینک کے حکام نے کہا کہ اب ایسے نظام تیار کیے گئے ہیں جو تعمیر نو اور بحالی کی سرگرمیوں میں تقسیم اور سرمایہ کاری کو بڑھانے میں مدد کریں گے۔