اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ضمانت 10،10 لاکھ روپے ضمانتی مچلکوں کی عوض منظور کرلی، تاہم روبکار جاری نہ ہونے کے باعث ان کی رہائی کا معاملہ لٹک گیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت پر رہائی کا مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
ایک صفحے کے مختصر تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کی ضمانت 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی جاتی ہے، وجوہات پر مبنی تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
ڈان نیوز کے مطابق اسپیشل جج سینٹرل ایف آئی اے شاہ رخ ارجمند کی عدم دستیابی کے باعث بشریٰ بی بی کی رہائی کے لیے روبکار جاری نہ ہو سکی، ڈیوٹی جج ہمایوں دلاور بھی رخصت پر تھے، اس کے باعث سابق خاتون اول کی آج رہائی ممکن نہیں۔
اس دوران پی ٹی آئی کے وکلا مچلکے لیے ایک عدالت سے دوسری عدالت چکر لگاتے رہے، بشریٰ بی بی کے وکلا خالد یوسف چوہدری اور خدیجہ صدیقی نے ایڈمنسٹریٹو جج راجا جواد عباس کی عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا تاہم وہ بھی کمرہ عدالت سے روانہ ہوچکے تھے جس کے بعد بشریٰ بی بی کے وکلا نے سیشن جج ویسٹ کی عدالت سے بھی روبکار جاری کرنے کی استدعا کی، عدالتی عملے نے بتایا کہ اسپیشل جج سینٹرل کے ڈیوٹی ججز کی لسٹ میں سیشن جج ویسٹ کا نام شامل نہیں۔
آج کی سماعت میں کیا ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بشری بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، وکیل سلمان صفدر اور ایف آئی اے پراسیکیوٹر عمیر مجید ملک عدالت میں پیش ہوئے۔
گزشتہ روز بشریٰ بی بی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے اور آج ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل دیے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ برطانوی وزیراعظم بھی تحائف اپنے ساتھ گھر لے گیا ہے، سب نے اسے کہا تو کہتا ہے کہ رولز کے مطابق لیا ہے، اُسے کہا گیا کہ رولز اپنی جگہ لیکن تمہارا ایک قد کاٹھ بھی ہے۔
فاضل جج نے کہا کہ اگر آپ کو یا ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب کو موقع ملے تو آزربائیجان جا کر دیکھیں، وہاں پر ایک ایسا میوزیم ہے جہاں پر گفٹ رکھے جاتے ہیں، پوری دنیا کے صدور کو جو گفٹ ملتے ہیں وہ وہاں ان کی تصویر کے ساتھ رکھتے ہیں، مجھے وہاں پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی تصویر نظر آئی لیکن بد قسمتی سے کسی اور کی کوئی تصویر نظر نہیں آئی۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ بشریٰ بی بی نے تحائف جمع نہیں کرائے تو بانی پی ٹی آئی کو ملزم کیوں بنایا گیا جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر عمیر مجید نے جواب دیا کہ کیوں کہ پبلک آفس ہولڈر عمران خان تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ تو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی طرح کا کیس ہے، اُس کیس میں بھی شوہر کو بیوی کے کیے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا جس پر عمر مجید نے کہا کہ یہ کیس اُس سے تھوڑا مختلف ہے، ریاست کو ملنے والا گفٹ جمع کرانا اور ڈیکلیئر کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تحفہ ریاست کی ملکیت ہوتا ہے جب تک اسے قانونی طریقے سے خرید نہ لیا جائے، ایک پروسیجر دیا گیا ہے جس کے تحت قیمت کا تخمینہ لگنے کے بعد 4 ماہ میں تحفہ خریدا جا سکتا ہے، یہ کیس ایسے گفٹ سے متعلق ہے جو جمع ہی نہیں کرایا گیا اور اس اقدام کے نتائج ہیں، ریاست کے ملکیتی تحفے کو خریدنے سے قبل اپنے پاس نہیں رکھا جا سکتا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ توشہ خانہ کی تحفے کی قیمت کا درست تخمینہ آکشن کے ذریعے ہی لگایا جا سکتا ہے، آپ کسی شاپ سے گھڑی لے کر نکلیں اور پھر بعد میں اس کی قیمت لگوائیں تو کیا قیمت لگے گی۔
بعد ازاں، اسلام آباد ہائیکورٹ سے بشریٰ بی بی درخواست ضمانت منظور کرلی، 10،10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کی عوض ضمانت منظور ہوئی۔
بشریٰ بی بی کے وکیل کے دلائل
بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ کیس ہے کہ قیمت کا تعین کرنے والے پرائیویٹ شخص سے قیمت کم لگوائی گئی، قیمت کا تعین کرنے والا صہیب عباسی اب وعدہ معاف گواہ بن چکا ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ پھر اس کے بعد کسٹمز کے افسران نے قیمت کا تعین کیا، یہ سب لوگ گواہ ہیں کسی کو ملزم نہیں بنایا گیا، کابینہ ڈویژن سے کسی شخص کو ملزم نہیں بنایا گیا، کابینہ ڈویژن سے کسی کو شاملِ تفتیش تک نہیں کیا گیا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا کوئی براہ راست رابطہ نہیں تھا، پراسیکیوشن کے اپنے مطابق یہ تمام کام انعام اللہ شاہ کرتا ہے لیکن وہ ملزم نہیں، صہیب عباسی جو درحقیقت قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہا ہے وہ وعدہ معاف گواہ ہے۔
بشریٰ بی بی کے وکیل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، کوئی عدالتی نظیر موجود نہیں، عمران خان کا بازو مروڑنے کیلئے بشریٰ بی بی کو قید رکھا گیا ہے، بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، وہ گھریلو خاتون ہیں، وہ 264 دن سے جیل میں قید ہیں، اس کیس میں 13 جولائی 2024 سے گرفتار ہیں۔
انہوں نے عدالت بتایا کہ بشریٰ بی بی پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں ہیں، 3 سال 3 ماہ کی تاخیر سے یہ مقدمہ بنایا گیا، 31 جنوری 2024 کو نیب کے دوسرے ریفرنس میں بشری بی بی کو سزا دی گئی، 3 سال میں گرفتار کیا نہ ہی بشری بی بی کے خلاف کوئی کریمنل کیس بنایا گیا۔