190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے وکلا کی عدم موجودگی کے باعث عدالت نے ریمارکس دیے کہ وکلا صفائی کا یہی طریقہ کار رہا تو ضمانت منسوخ کر کے وارنٹ گرفتاری دوبارہ جاری ہوسکتے ہیں۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں 190 پاؤنڈ نیب ریفرنس پر سماعت ہوئی، بانی پی ٹی آئی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا، بشریٰ بی بی کی جانب سے معاون وکیل خالد یوسف چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل خالد یوسف چوہدری نے بشریٰ بی بی کی طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی، پراسیکیوشن ٹیم کی جانب سے بشریٰ بی بی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی مخالفت کی گئی۔
نیب پراسیکوٹر نے مؤقف اپنایا کہ بشریٰ بی بی نہ خود عدالت میں پیش ہوئیں، نہ ان کے وکلا عدالت آئے ہیں، وکلا کی موجودگی میں آج کی سماعت کی تاریخ دی گئی تھی، اگر وکلا ہائی کورٹ میں مصروف تھے تو عدالت کو بتا دیتے، حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر بشریٰ بی بی اور وکلا کے دستخط بھی موجود نہیں ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پراسیکیوشن کو شوق نہیں کہ بشریٰ بی بی ہر سماعت پر عدالت میں پیش ہوں، بشریٰ بی بی اگر نہیں آنا چاہتیں تو اپنا پلیڈر مقرر کر دیں، طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنیٰ مانگا جا رہا ہے لیکن میڈیکل رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں، بشریٰ بی بی کی جانب سے ضمانت کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، شو کاز نوٹس جاری کیا جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وکلا کا یہی طریقہ کار رہا تو ضمانت منسوخ کر کے وارنٹ گرفتاری دوبارہ جاری ہوسکتے ہیں۔
بشریٰ بی بی کے وکلا کی عدم موجودگی کے باعث کیس کے تفتیشی افسر پر جرح نہ ہو سکی اور عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔