بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اسکول کے قریب بم دھماکے کے نتیجے میں 5 بچوں، پولیس اہلکار سمیت 9 افراد جاں بحق جبکہ 33 افراد زخمی ہوگئے۔
سیکورٹی حکام کے مطابق دھماکے کی زد میں اسکول کے بچوں کی وین سمیت پولیس گاڑی بھی آئی، بم ڈسپوزل اسکواڈ اور ضلعی انتظامیہ جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔
ایس ڈی پی او میاں داد عمرانی نے بتایا ہے کہ دھماکا خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا جو کہ ریموٹ کنٹرولڈ تھا، دھماکے میں 1 پولیس اہلکار، اسکول کے پانچ بچے اور بچیوں سمیت 7 افراد جاں بحق ہوئے، جاں بحق بچوں کی عمریں 5 سے10 سال کے درمیان ہیں، زخمیوں میں 4 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، دھماکے سے پولیس کی گاڑی، اسکول وین اور رکشوں کو نقصان پہنچا۔
اطلاعات ہیں کہ دھماکے میں 13 افراد زخمی ہیں جن میں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے، زخمیوں کو ڈی ایچ کیو اور غوث بخش رئیسانی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
وزیر صحت بلوچستان بخت محمد کاکڑ اور سیکریٹری صحت بلوچستان مجیب الرحمن نے سول اسپتال، بی ایم سی اسپتال کوئٹہ اور ٹراما سینٹر میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔
ترجمان صوبائی حکومت نے محکمہ داخلہ بلوچستان سے واقعے سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے مستونگ میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے شہید پولیس اہلکار اور معصوم بچوں کے ورثاء سے اظہار افسوس کیا۔
میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے غریب مزدوروں کے ساتھ اب معصوم بچوں کو نشانہ بنایا، انسانیت سوز واقعہ قابل مذمت ہے۔اسپتال ذرائع کے مطابق مستونگ دھماکے کے پانچ زخمی کوئٹہ منتقل کردیے گئے جن میں سے ایک کی حالت تشویش ناک ہے جب کہ دو زخمی دو توڑ گئے جس کے بعد مستونگ دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد سات ہوگئی۔
اسپتال ذرائع کے مطابق مستونگ دھماکے کے 11 زخمی ٹراما سینٹر منتقل کردئیے گئے زخمیوں میں پانچ کی حالت تشویش ناک ہے جنہیں طبی امداد دی جارہی ہے۔
صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے ٹراما سینٹر کا دورہ کیا اور مستونگ دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو فوری اور بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ ٹراما سینٹر اور سول ہسپتال کے آپریشن تھیٹر تیار ہیں، طبی امداد کے لئے مزید ڈاکٹرز پہنچ گئے ہیں۔