پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا، جہاں وکلا صفائی نے 35 گواہوں پر جرح مکمل کر لی۔
اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے سماعت کی۔
پانی پی ٹی آئی عمران خان کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا، جبکہ بشری بی بی سماعت کے لیے اڈیالہ جیل آئیں۔
اس موقع پر عمران خان کے وکیل ظہیر عباس اور بشری بی بی کے وکیل عثمان گل نے گواہوں پر جرح کی۔
نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں مزید کوئی شواہد پیش نہیں کرنا چاہتے، جس پر عدالت نے عمران خان اور بشری بی بی کے 342 کے بیان کے لیے 8 نومبر کی تاریخ مقرر کر دی۔
8 نومبر کو عدالت عمران خان اور بشری بی بی کو 342 کے بیان کے سوال نامے فراہم کرے گی۔
بعد ازاں، احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس پر سماعت 8 نومبر تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 4 نومبر کو عدالت نے 190ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے وکیل کو جرح کا حق ختم کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت 6 نومبر تک ملتوی کر دی تھی۔
342 کا بیان کیا ہوتا ہے؟
ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت ملزمان سے ان کا موقف سنتے ہیں۔
عدالت کی جانب سے دیے گئے موقع پر ملزم چاہے تو اپنی صفائی میں کچھ کہہ سکتا ہے، اسے 342 کا بیان بھی کہتے ہیں۔
ماہر قانون وقاص ابریز کا کہنا ہے کہ ملزم کا بیان زیر دفعہ 342 (ض) (ف) قلمبند کرتے ہوئے عدالت خود ملزم سے سوالات کرتی ہے اور وہ ان سوالات کے جواب دیتا ہے۔
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔