شام کی جیلوں سے باغیوں کے انقلاب کے نتیجے میں رہا ہونے والے قیدیوں نے ہولناک انکشافات کیے ہیں، ان قیدیوں کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کی بنائی ہوئی جیلوں میں قیدیوں کو نام کے بجائے نمبر سے پکارا جاتا تھا، غیر انسانی تشدد کیا جانا معمول تھا، رہائی کے بعد ایسا لگا جیسے ہم آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔
شام کی ایک جیل سے رہائی پانے والی قیدی ہالا کہتی ہیں کہ جیل میں میرا نام ’نمبر 1100‘ تھا، ہالا اپنے نام سے اپنی شناخت کے حوالے سے اب تک خوفزدہ ہیں۔
خلیجی جریدے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہالا نے بتایا کہ انہیں 2019 میں حما میں ایک چیک پوسٹ سے لے جایا گیا تھا اور ان پر ’دہشت گردی‘ کا الزام لگایا گیا تھا، انہیں حلب لے جایا گیا جہاں انہوں نے مختلف جیلوں میں وقت گزارا ہے۔
ہالا نے 29 نومبر کو حیات طاہر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں باغی فورسز کی طرف سے جیل سے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کہا کہ ’ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ حقیقی ہے اور ہم روشنی دیکھیں گے‘۔
ہالا نے خود اور اپنے ساتھ آزادی حاصل کرنے والوں کے حوالے سے کہا کہ ’خوشی بہت زیادہ تھی‘، ہم خوش اور خوش تھے، کاش کہ ہم آزادی دلوانے والوں کو گلے لگا سکیں، یہ خوشی اس وقت اور بھی زیادہ بڑھ گئی جب میں اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی، ایسا لگتا تھا جیسے میں دوبارہ پیدا ہوئی ہوں۔
حلب کی جیل ایچ ٹی ایس کی جانب سے کھولی گئی متعدد شامی تنصیبات میں سے ایک تھی، ایچ ٹی ایس کی حلب سے دمشق تک پیش قدمی نے دنیا بھر کے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے اور بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کر دیا ہے۔
ہالا رہائی پانے والے ایک لاکھ 36 ہزار 614 قیدیوں میں سے ایک ہیں، شامی انسانی حقوق گروپ کے مطابق ان قیدیوں کو ’قصاب جیلوں‘ کے نیٹ ورک میں رکھا گیا تھا، باغیوں کے انقلاب سے ان سب کو رہائی ملی۔
شام کی جیلیں الاسد حکومت کے استحکام کے لیے اہم ستون رہی ہیں، انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ سنہ 2013 میں شام سے اسمگل کی جانے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’شامی حکومت کے حراستی مراکز میں بڑے پیمانے پر تشدد، بھوک، مار پیٹ اور بیماریوں کے ناقابل تردید ثبوت ہیں‘، جو انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔
ہالا نے جیل میں قید ایک 16 سالہ لڑکی کی گرفتاری اور اس پر خوفناک تشدد کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بعد میں اس لڑکی کی موت ہو گئی تھی، لڑکی کی گرفتاری اس کی شادی کے صرف 2 ماہ بعد ہوئی، جب پولیس نے اسے یونیورسٹی کی ایک طالبہ، ایک معمر خاتون اور دو ڈاکٹروں کے ساتھ حراست میں لیا، جن پر پولیس نے ’انقلابیوں‘ کا علاج کرنے کا الزام لگایا تھا۔
نہ بھلائی جانے والی یادیں
حلب کی جیل سے رہائی کے بارے میں 49 سالہ صفی الیاسین کو لگتا ہے ’یہ دن میری پیدائش کے دن جیسا تھا، گویا یہ میری زندگی کا پہلا دن تھا‘، یہ خوشی ناقابل بیان ہے۔
صفی الیٰسین نے 29 نومبر سے پہلے جیل کے قریب لڑائی کی آواز دوسروں کے ساتھ سننے کے بارے میں بتایا کہ ’ماحول پرسکون ہونے سے پہلے، ہم نے نعروں کی آوازیں سنیں’۔
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 5000 قیدی تھے، ہم نے باہر نکلنے کے لیے کھڑکیاں توڑنا اور دروازے توڑنا شروع کر دیے، یہاں تک کہ جیل کے افسران اور محافظ بھی عام شہریوں جیسے کپڑے پہن کر ہمارے ساتھ باہر نکلے، تاکہ باغیوں کے ہاتھوں انہیں پکڑا نہ جاسکے۔
صفی الیٰاسین ایک لوہار تھا جس نے گرفتاری سے قبل شام کے شمال مغرب میں واقع ساحلی شہر بنیاس میں ماہی گیروں کی کشتیاں بنائی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ سنہ 2011 میں شامی انقلاب کے آغاز میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں سے ایک میں حصہ لینے کے جرم میں انہیں 31 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، اگلے 14 سال کے دوران، انہیں شام کے وسیع جیل نظام کے اندر مختلف مقامات پر شدید جسمانی اور کئی سال طویل نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
صفی الیاسین نے ایک سال صیدنایا کی بدنام زمانہ جیل میں گزارا، جسے 2017 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’انسانی مذبح خانہ‘ قرار دیا تھا، جس کے بعد انہیں سویدہ اور بالآخر حلب منتقل کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ صیدنایا میں میرے ساتھ کیا گیا سلوک ناقابل بیان اور ناقابل تحریر ہے، جو مناظر میں نے دیکھے وہ انمٹ ہیں، میری موت تک یہ سب کچھ بھولنا ممکن نہیں، انہوں نے ایک بوڑھے شخص کو یاد کیا، جو خون میں ڈوبا ہوا تھا، بعد ازاں اس کی موت ہوگئی تھی۔
موت کے بالکل قریب
اک اور قیدی ماہر (جو اپنا پورا نام بھی نہیں بتانا چاہتا) رہا ہونے والوں میں شامل تھا، سنہ 2017 میں ’دہشت گردی کی مالی معاونت‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اس نے 7 سال شام کی جیل میں بغیر کسی مقدمے کے گزارے، ماہر کا خیال تھا کہ حکام اسے ’بھول‘ گئے ہیں، جیسے میں انسان نہیں ہوں کیوں کہ میں صرف ایک نمبر تھا۔
انہوں نے جیل میں جو کچھ تجربہ کیا اور دیکھا اس کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کی شدت اور سفاکانہ طریقوں کی وجہ سے ہر منٹ موت کے قریب محسوس ہوتا تھا، جسے کوئی جانور بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا، لیکن شاید چونکا دینے والا لمحہ وہ تھا جب ان کی ملاقات دمشق کی بدنام زمانہ میزہ جیل میں اپنے قریبی رشتہ دار سے ہوئی۔
ماہر نے کہا کہ ایک بس ان قیدیوں کو لے کر آئی جنہیں میری کوٹھری میں منتقل کیا گیا تھا، ان میں ایک قیدی بھی تھا جو میرے بہنوئی سے ملتا جلتا تھا، میں نے سب سے پہلے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا اور سوچا کہ یہ ایمن نہیں ہو سکتا، یہ وہ نہیں ہو سکتا، اس کی ٹانگیں نہیں کاٹ دی گئی تھیں؟
ماہر نے اپنے بدترین شکوک و شبہات کی تصدیق کرنے کے لیے قیدی کے پاس جانے کے بارے میں بتایا، صرف اس بات کا پتہ چلا کہ معذور شخص اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہے، آخر کار، صرف ایک ٹیٹو کے ذریعے ہی ماہر کو احساس ہوا کہ یہ وہ شخص ہے جسے وہ جیل سے باہر کی زندگی سے جانتا تھا۔
ماہر کہتے ہیں کہ کئی سال کے انسانیت سوز تشدد کے بعد، حلب جیل چھوڑنے کی توقع ختم ہوچکی تھی، لیکن پھر یہ غیر متوقع واقعہ پیش آیا۔
انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی فائرنگ کی آواز جیل کے قریب پہنچی، ہم سب نے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا اور ہم کبھی یقین نہیں کر سکے کہ یہ خواب حقیقت بن گیا ہے، ہم دروازے توڑ کر جیل سے باہر نکلے، انقلابیوں کو گلے لگایا، خدا کا شکر ادا کیا، اور ہمیں اس وقت تک حفاظتی حصار میں رکھا گیا جب تک کہ میں اپنی بہن کے گھر نہیں پہنچ گیا، جو اپنے خاندان کے ساتھ ادلب میں رہتی ہے۔