حکومت کی جانب سے ملک کے سائبر کرائم قوانین پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) میں کی جانے والی نئی مجوزہ تبدیلیوں کی خلاف ورزی کے نتیجے میں 7 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے نجی جریدے نے رپورٹ کیا تھا کہ حکومت پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) میں جامع تبدیلیاں کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، ان تبدیلیوں کے تحت ایک نئی اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جسے آن لائن مواد اور سوشل میڈیا تک رسائی کو بلاک کرنے کے اختیارات حاصل ہوں گے، اور وہ افراد جو ’جعلی خبریں‘ پھیلائیں گے ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔
وزیر مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ نے علظ معلومات کے حوالے سے خدشات کو ظاہر کرتے ہوئے پیکا ایکٹ میں ترامیم کے زیر غور ہونے کی تصدیق کی تھی۔
ترامیم کے مجوزہ مسودے میں ایک نئی شق 26 (اے) شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کے تحت آن لائن ’ جعلی خبریں’ پھیلانے کے مرتکب افراد کو سزا دی جاسکے۔
اس شق میں کہا گیا ہے کہ ایسا شخص جو جان بوجھ کر ایسی معلومات پوسٹ کرے گا جس کے بارے میں اسے معلوم یا یقین ہو کہ یہ غلط یا جعلی ہے اور اس سے انتشار یا افراتفری پیدا ہونے کا امکان ہو تو اسےکم از کم پانچ سال تک قید، 10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
تاہم اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں ہیں کہ شق میں ’جعلی یا غلط معلومات‘ سے کیا مراد ہے.
مجوزہ ترامیم کے نظرثانی شدہ مسودے میں کہا گیا ہے جو کوئی بھی جان بوجھ کر کسی بھی معلوماتی میڈیم کے ذریعے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو یہ جعلی یا غلط معلومات ہے، پھیلاتا ہے اور اس سے عام عوام یا معاشرے میں خوف، گھبراہٹ، انتشار یا بے چینی پیدا ہونے کا امکان ہو تو اسے قید کی سزا دی جائے گی۔
اس سزا کو خواتین اور بچوں کے معاملے میں 7 سال تک بڑھایا جاسکتا ہے لیکن اس کی کم از کم مدت تین سال سے کم نہیں ہوگی جبکہ دیگر معاملات میں 3 سال یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
پچھلے مسودے میں اس مواد کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا جس میں آئینی اداروں اور ان کے افسران، بشمول عدلیہ اور مسلح افواج، کے خلاف بے جا الزامات شامل ہوں لیکن اب نئے مسودے کے مطابق اب ’کسی بھی فرد، بشمول عدلیہ، مسلح افواج، پارلیمنٹ یا کسی صوبائی اسمبلی کے ارکان، کے خلاف من گھڑت الزامات‘ کو نئی درجہ بندی کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
مجوزہ ترامیم کے مطابق، نئی تجویز کردہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں سے غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک یا ہٹانے کی درخواست کر سکتی ہے لیکن ترمیم شدہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم اتھارٹی کی کسی شرط، ہدایت یا حکم کی خلاف ورزی کرے یا ان پر عمل نہ کرے تو وفاقی حکومت کے متعلقہ حکام اتھارٹی کی درخواست پر ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بلاک کرسکتے ہیں۔