ترجمان جمعیت علمائے اسلام (ف) اسلم غوری نے صدر مملکت کی جانب سے مدارس بل اٹھائے گئے اعتراضات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے مدارس بل پر اعتراضات حیران کن ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان جے یو آئی (ف) کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ صدر مملکت کے اعتراضات کا طریقہ قانون کے مطابق نہیں، صدر آصف زرداری کے اعتراضات آئین میں دی گئی مدت کے اندر نہیں اٹھائے گئے۔
ترجمان اسلم غوری نے کہا کہ اعتراضات قسطوں میں کیے گئے ،ایک بار اعتراضات کیے، ان کا جواب دیا گیا، دوبارہ اعتراضات کا حق نہیں، مزید کہنا تھا کہ اعتراضات اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجنے چاہیے تھے، ان کے پاس یہ اعتراضات نہیں بھیجے گئے۔
ترجمان جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ جو اعتراض اسپیکر کو بھیجا گیا تھا، اس کا جواب دے دیا گیا تھا، اسپیکر آفس کےجواب پر ایوان صدر نے اپنے اعتراضات پر دوبارہ زور نہیں دیا۔
ترجمان اسلم غوری نے مزید ردعمل دیا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے مجوزہ ترامیم پر اعتراض کے ساتھ تجاویز اور حل بھی بھیجا جاتا، مدارس بل میں کوئی تجاویز اور حل نہیں بتائے جا رہے۔
ترجمان جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ ایوان صدر بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔
واضح رہے کہ آج مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف زرداری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سامنے آئے تھے۔
آصف زرداری نے اعتراض میں مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کا حوالہ دیا تھا۔
صدر مملکت نے کہا تھا کہ دونوں قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ہو سکتی، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے۔
انہو ں نے کہا تھا کہ نئے بل میں مدرسہ کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہو گا، اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو گا۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ایک ہی سوسائٹی میں بہت سے مدرسوں کی تعمیر سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہو گا، سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہو گا، ایسے مفادات کے ٹکراؤ سے عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
صدر مملکت نے کہا کہ اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہوگا اور ایک ہی سوسائٹی میں بہت سے مدرسوں کی تعمیر سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہوگا۔ سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہوگا اور ایسے مفادات کے ٹکراؤ سے عالمی تنقید کا سامنا کرنا بھی پڑے گا جبکہ بل کی منظوری سے ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی ادارے پاکستان کے بارے میں اپنی آراء اور ریٹنگز میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ مدارس بل ایکٹ بن چکا، نوٹی فکیشن جاری کیا جائے، دینی مدارس کے معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھا دیا گیا ہے، ہمارا علما سے کوئی اختلاف نہیں، ہماری شکایت صرف اور صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے۔