اقوام متحدہ نے افغانستان میں غذائی قلت سے لاکھوں بچوں کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔
مقامی حکام اور بچوں کی بقا پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے نے کہا ہے کہ افغانستان میں غذائی قلت کا بحران ہے اور کئی بچے بھوک کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام ( ڈبلیو ایف پی) کے مطابق افغانستان کی نصف سے زائد آبادی غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرتے ہوئے قحط کی جانب بڑھ رہی ہے۔اقوام متحدہ کے ایک سینئر اعلی عہدے دار کا کہنا ہے کہ انسانی ہمدری کی بنیاد پر افغانستان کے منجمد فنڈز کو فوری جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر فوری اور ضروری اقدامات نہیں کیے گئے توبچوں سمیت لاکھوں افغان شہری قحط سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔
اس سے پہلے خبردار کیا گیا تھا کہ ملک میں سال کے آخر تک غذائی قلت لاکھوں بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔غذائی قلت کے سب سے زیادہ شکار صوبے غور کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر محمد احمدی نے بتایا ہے کہ صوبے میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران جن لوگوں کو ہسپتال لایا گیا ان میں 17 بچے بھی تھے جو غذائی قلت کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے خبر رساں ایجنسی رائٹر کو بتایا کہ افغانستان کی 2 کروڑ 28 لاکھ آبادی جو کہ کل آبادی کا نصف سے زائد ہے، غذائی قلت اور عدم تحفظ کی وجہ سے قحط سالی کا شکار ہونے والے ہیں۔ جب کہ 2 ماہ قبل تک یہ تعداد 1 کروڑ 40 لاکھ تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امداد کے فقدان اور معاشی بدحالی سے صورت حال دن بہ دن بدترین ہوتی جا رہی ہے، بچے مر رہے ہیں اورعوام فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہے۔
برسیلے کا کہنا تھا کہ یہ تباہی ہماری توقع کے برعکس بہت زیادہ تیزی سے ہوسکتی ہے اور کابل کی معاشی تباہی سب کی توقعات کے برعکس بہت زیادہ رفتار سے ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص ڈالر کو انسانی امداد کے لیے دوبارہ استعمال کیا جانا چاہئے جس طرح دوسری اقوام کے ساتھ کیا گیا ہے یا پھر منجمند کیے گئے فنڈز کو کسی ایجنسی کے ذریعے جاری کرنا چاہیے، اگر ہم نے فنڈز جاری کردیے تو تب ہی افغان عوام زندہ رہ سکتے ہیں۔ جب کہ اقوام متحدہ کی فوڈ ایجنسی کو تقریبا 23 ملین افراد کو جزوی طور پر کھانا فراہم کرنے کے لیے ماہانہ 220 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔