حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، آغاز بہت اچھا ہے، افغان وزیر خارجہ

14  ‬‮نومبر‬‮  2021

طالبان حکومت کے عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اورتحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے درمیان معاہدے کیلئے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، یہ کردار دونوں فریقین کی خواہش پر ادا کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ابھی تک حتمی معاہدہ نہیں ہوا ہے تاہم آغاز بہت اچھا ہوا ہے اور معاہدے کے پہلے حصے میں ایک مہینے کی فائربندی پر اتفاق ہوا ہے۔ دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ بات چیت جاری رہے گی۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ ایک اچھا قدم ہے اور وہ پرامید ہیں کہ اس سلسلے میں آگے بھی مشکلات پیش نہیں آئینگی اور پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین نزدیکیاں بڑھیں گی۔

داعش کا ملک کے بیشتر حصوں سے صفایا کردیا

داعش کی افغانستان میں موجودگی کے متعلق سوال پر افغان نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا  کہ داعش خطرہ تو ہے تاہم ان کی حکومت نے ملک کے بڑے حصے سے اس کا خاتمہ کر دیا ہے، ایک دو واقعات دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ پہلے افغانستان کا ستر فیصد حصہ اسلامی امارات کے کنٹرول میں تھا۔ اب ان تمام علاقوں سے طالبان نے داعش کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا ہے۔ وہ صرف ان حصوں میں موجود تھے جہاں سابق کابل حکومت کا کنٹرول تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم نے کابل فتح کیا تو ان علاقوں میں داعش نے سر اٹھانا شروع کیا مگر ہماری طالبان حکومت نے ان کو کنٹرول کرنے کے لیے بہترین اقدامات کئے، ہم نے ابھی اکثر علاقوں میں داعش کو محدود کردیا ہے۔ چند ایک جگہوں جیسا کہ مساجد کی طرف کبھی کبھار کوئی واقعہ ہوجاتا ہے، جو دنیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔

بھارت سمیت کسی ملک سے بھی تنازعات نہیں چاہتے

انڈیا کے ساتھ تعلقات کے سوال پر امیر خان متقی نے بتایا کہ افغانستان، انڈیا سمیت کسی ملک کے ساتھ تنازع کا خواہاں نہیں، افغانستان کی موجودہ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہمارا دنیا کے کسی بھی ملک کیساتھ ٹکراؤ نہ ہو،یا ایسے چیلنجز آئیں جو ہماری قوم کو متاثر کریں سو ہم اس معاملے پر کام کرتے رہیں گے۔

انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات پر پاکستان یا چین کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آنے کے سوال پر انہوں نے ماسکو میں ہونے والی ملاقاتوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ جب ہم نے ماسکو کانفرنس میں شرکت کی تو وہاں انڈیا، پاکستان اور دیگر ممالک کے نمائندے موجود تھے۔ وہاں مثبت باتیں ہوئی تھیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہم کسی ملک کی مخالفت نہیں کریں گے۔

یہ تاثر غلط ہے کہ افغان خواتین کسی شعبے میں نظر نہیں آرہیں

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے متعلق سوال پر امیر خان متقی نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ خواتین کسی شعبے میں نظر نہیں آ رہیں، صحت کے شعبے میں خواتین کی شمولیت سو فیصد ہے،  وہ تعلیم کے شعبے میں بھی پڑھا رہی ہیں۔ وہ ہر اس شعبے میں کام کر رہی ہیں جس میں ان کی ضرورت ہے۔ ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کہ ہم خواتین کو کسی شعبے میں ان کا حق نہ دیں۔

افغانستان کے سرکاری اور دیگر دفاتر میں برسرروزگار خواتین کو کام پر واپس جانے کی اجازت نہ ملنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد یہاں گزشتہ حکومت میں کام کرنے والی خواتین میں سے کسی کو بھی ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا۔ان خواتین کی تنخواہوں، تعلیم اور روزگار کے مواقعوں میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی۔

تمام تعلیمی ادارے کھلے ہیں، کچھ علاقوں میں بندش کورونا کی وجہ سے ہے

کسی صوبے میں تعلیمی ادارے بند نہیں ہیں، پورے ملک میں تمام تعلیمی ادارے کھلے ہیں۔ ہم نے سکولوں کو تین کیٹیگرییز میں تقسیم کیا ہے۔ پورے ملک میں لڑکوں کے سارے سکول کھلے ہیں اور لڑکیوں کے چھٹی جماعت تک تمام صوبوں میں سکول کھلے ہیں۔اگرچہ کچھ صوبوں میں اعلی درجات والے سکول بھی کھلے ہیں مگر تمام جگہوں پر ایسا نہیں۔ کچھ علاقوں میں مشکل یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے بہت سے سکول پہلے ہی کچھ مہینوں سے بند تھے۔ ہم نے صفر سے سکول کھولنے شروع کئے اور اب تک 75 فیصد کھول دیے ہیں۔ سو ہم اس مرحلے پر رکے ہوئے نہیں ہیں بلکہ کام کر رہے ہیں اور روز بروز ترقی کررہے ہیں۔

طالبان نے جامع حکومت قائم کردے، عالمی برادری تسلیم کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟

اس سوال پر کہ افغانستان کو تسلیم نہ کیا گیا اور امداد کا ذرائع دوبارہ نہ کھلے تو طالبان حکومت نے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے، امیر خان متقی نے کہا کہ وہ دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ امید رکھتے ہیں دنیا کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم ہونگے۔انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت میں تمام علاقوں اور قبائل کے نمائندے شامل ہیں اور دنیا کو یہ حکومت تسلیم کرنی چاہیے۔

افغانستان میں اس وقت جو حکومت قائم ہے اس میں پچھلی حکومت کا تمام سٹاف اور ملازمین شامل ہیں جو تقریبا پانچ لاکھ عملے پر مشتمل ہیں۔ اگر دنیا نے پچھلی حکومت کو ایک ‘انکلوسیو حکومت’ کے طور پر تسلیم کیا تھا تو پھر ہماری حکومت کو کیوں نہیں کرتے؟

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر انکلوسیو حکومت سے دنیا کی مراد ایسی حکومت ہے جس میں تمام قبائل شامل ہوں تو ہماری حکومت میں بھی تمام قوموں اور قبائل اور تمام علاقوں کی نمائندگی ہے۔

اگر ان کی مراد وزارتوں میں تمام علاقوں سے نمائندگی ہے تو ہمارے پاس پنجشیر کا وزیر ہے،  بدخشاں، فاریاب، قندھار، ننگرہار اور کابل کے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ہر ملک اور خطے کی انکلوسیو حکومت کی اپنی تشریح ہے، اس لیے ہم یہ کوشش اب بھی جاری رکھیں گے کہ ہم اپنی حکومت کو مزید انکلوسیو بنائیں تاکہ سب کو حق ملے۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved