ایران نے عورتوں اور مردوں کی نس بندی سمیت مانع حمل اور اسقاط حمل پر پابندی عائد کر دی ہے، خواتین کو حمل روکنے یا گرانے کی اجازت صرف ان کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہونے کی صورت میں دی جائے گی۔
ایران کی ملکی آبادی میں نوجوانوں کے تناسب میں اضافے اور خاندانوں کی مدد کے نام سے بنایا گیا قانون ایران کے قانون ساز ادارے نے یکم نومبر 2021ء کو منظور کیا تھا۔
نئے قانون کے تحت ملکی وزارت صحت ایک ایسی کمیٹی بنائے گی، جس میں ڈاکٹر، اسلامی قانون کے ماہرین، عدلیہ کے نمائندے اور قومی پارلیمان کی صحت سے متعلق کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہوں گے اور جو ایسے نئے ضابطے تشکیل دے سکے گی جس سے حاملہ خواتین کیلئے اسقاط حمل کروانا مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ایران کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر اداروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے افراد یا اداروں کی شناخت کر کے ملکی عدلیہ کو مطلع کریں جو اسقاط حمل کرتے ہوں یا جنہوں نے اس مقصدکیلئے مراکز کھول رکھے ہوں یا جو اسقاط حمل کیلئے استعمال ہونے والی ادویات فروخت یا مہیا کرتے ہوں۔
ایرانی پارلیمنٹ نے یہ بل 16 مارچ 2021ء کو منظور کر لیا تھا اور اب یہ قانون حتمی دستخطوں کے بعد ملک کے سرکاری گزٹ میں شائع ہوتے ہی اسی مہینے نافذالعمل ہو جائے گا۔ ملکی آبادی میں اضافے کیلئے منظور کئے گئے اس قانون کی مدت 7 سال ہو گی۔ اس قانون کے مطابق حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کی مراعات میں بھی اضافہ کیا گیا تاکہ اس عمل کو فروغ دیا جا سکے۔
ہیومن رائٹس واچ کا ردعمل
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف خواتین کے حقوق کے منافی ہے بلکہ خواتین کی جنسی اور تولیدی صحت کے تقاضوں کی بھی نفی کرتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ نیا قانون فی الفور ختم کیا جائے۔