عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں منکی پوکس کے مزید کیسز کے خدشے کے پیش نظران ممالک کی نگرانی بڑھا دی ہے جہاں ابھی تک یہ بیماری رپورٹ نہیں ہوئی۔
برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ گزشتہ روز12 رکن ممالک سے منکی پوکس کے 92 مصدقہ اور 28 مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں جہاں یہ وائرس پہلے سے موجود نہیں تھا۔ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ وہ آئندہ دنوں میں منکی پوکس کے پھیلاؤ سے روکنے سے متعلق رہنمائی اور مشورے بھی فراہم کریں گے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ وائرس انسانوں سے دوسرے انسانوں کو قریبی جسمانی رابطے کے باعث لاحق ہو رہا ہے۔
دوسری جانب امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تاریخ میں پہلی بار یہ وائرس افریقی ممالک سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلتا جارہا ہے اور اس کی تشخیص ایسے افراد میں بھی ہو رہی ہے جو کبھی افریقی ممالک گئے ہی نہیں۔منکی پوکس ایک ایسا وائرس ہے جو جنگلی جانوروں میں پایا جاتا ہے اور اکثر ان سے انسانوں کو بھی لگ جاتا ہے۔ اس وائرس کے زیادہ تر کیسز ماضی میں افریقا کے وسطی اور مشرقی ممالک میں پائے جاتے تھے ۔پہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت 1958ء میں اس وقت ہوئی تھی جب ایک تحقیق کے دوران کچھ سائنس دانوں کو بندروں کے جسم پر پوکس یعنی دانے نظر آئے ، اسی لیے اس بیماری کا نام منکی پوکس رکھ دیا گیا تھا۔
انسانوں میں اس وائرس کے پہلے کیس کی شناخت 1970ء میں افریقی ملک کانگو میں ایک 9 سالہ بچے میں ہوئی تھی۔متعدی بیماریوں کے ماہر ڈبلیو ایچ او کے اہلکار ڈیوڈ ہیمن نے کہا ہے کہ اب یہ جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کی طرح پھیل رہا ہے اور دنیا بھر میں اس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔