وفاقی وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی ڈاکٹر نور الحق قادری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجوزہ بل اسلام اور بنیادی انسانی اور آئینی حقوق سے متصادم ہے۔
وزارت مذہبی امور سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ مذہب تبدیلی کیلئے 18 سال کی شرط، جج کے سامنے پیشی اور 90 دن کا انتظار غیر شرعی اور غیر آئینی ہے۔ یہ بل اسلام قبول کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ اس لئےبل کے تفصیلی جائزے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے بعد متعدد اعتراضات کے ساتھ بل واپس بھیج دیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور کا کہناتھا کہ پاکستان میں جبراً مذہب کی تبدیلی کے واقعات بہت کم ہیں، اس کی شریعت میں گنجائش بھی نہیں ہے، لیکن یہ کم واقعات بھی ملک کی بدنامی کا باعث ہیں۔
وزارتِ مذہبی امور کا جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کا مجوزہ بل وزارت انسانی حقوق کو اعتراضات کے ساتھ واپس،
18 سال عمر کی شرط، جج کے سامنے پیشی اور 90 دن انتظار کا غیر شرعی/غیر قانونی اور بنیادی آئینی حقوق کے منافی قرار: @NoorulhaqPir@mohrpakistan#Force #Conversion #Bill pic.twitter.com/zdVIsDx9ca— Ministry of Religious Affairs & Interfaith Harmony (@MORAisbOfficial) September 23, 2021
بل اسلام قبول کرنے کی ممانعت کیلئے استعمال ہونے، مسلم اور غیر مسلم کمیونٹی میں منافرت کا باعث بنے گا۔ مذہب کی جبری تبدیلی کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں اور اس کی روک تھام بہر حال ضروری ہے۔ پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات بہت کم ہیں لیکن بدنامی کا باعث ہیں۔ @NoorulhaqPir
— Ministry of Religious Affairs & Interfaith Harmony (@MORAisbOfficial) September 23, 2021