اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس سے ورچوئل خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کی صورتحال، اسلاموفوبیا، ماحولیاتی تبدیلیوں، کورونا، مسئلہ کشمیر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانی سمیت متعدد موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی۔
افغانستان کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کے سیاست دانوں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کیلئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ میں اقوام متحدہ کے اس پلیٹ فارم سے ان سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ نائن الیون کے بعدامریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننےکی وجہ سے افغانستان کے بعد جس ملک کا سب سے زیادہ نقصان ہوا وہ پاکستان ہے۔ ہمارے 80 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 35 لاکھ پاکستانی بے گھر ہو گئے۔ لیکن ایسا کیوں ہوا؟
1980ء کی دہائی میں القاعدہ اور دیگر جنگجو گروپوں کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے کیلئے پاکستان اور امریکہ نے تربیت دی، تب وہ مجاہدین تھے، انہیں ہیرو سمجھا جاتا تھا۔ لیکن 1989ء میں سوویت یونین افغانستان سے چلا گیا اور پاکستان کو افغانستان سے آئے 50 لاکھ مہاجرین اور فرقہ واران گروہوں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا، جن کا پہلے اس خطے میں وجود ہی نہیں تھا۔اسی طرح امریکہ آج افغانستان کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔
سوویت یونین کے خلاف لڑائی کے بعد پاکستان پر پابندیاں لگا دی گئیں، ایسا لگا ہمیں استعمال کیا گیا ہے۔
افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاک امریکہ کردار کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا پاکستان اور امریکہ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والوں کی تربیت کرتے رہے، لیکن سوویت یونین کی واپسی اور 50 لاکھ مہاجرین کے ساتھ پاکستان کو تنہا چھوڑنے سے بھی بدترین وقت وہ تھا جب ایک سال بعد پاکستان پر پابندیاں لگا دی گئیں، یوں محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کو اس سارے عمل میں استعمال کیا گیا ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کو پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی
نائن الیون کے واقعے کے بعد اب چونکہ امریکہ کی قیادت میں فوجی اتحاد افغانستان پر حملہ آور ہو رہا تھا جو کہ پاکستان کی معاونت اور لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ناممکن لگتا تھا، اسلئے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہی مجاہدین جنہیں امریکہ اور پاکستان نے تربیت دی تھی ان پر حملہ کر دیا گیا، وہ غیر ملکی افواج کے قبضے کے خلاف جنگ کیلئے تیار ہو گئے، انہوں نے ہمیں بھی امریکی اتحاد کا حصے دار سمجھتے ہوئے ہمارے خلاف بھی جہاد کا اعلان کر دیا۔
پاکستان کے قبائلی بھی حکومت کے خلاف ہو گئے
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستان کے قبائلیوں کی پختون قومیت کی وجہ سے طالبان کے ساتھ ہمدردیاں تھیں، اس کے علاوہ 30 للاکھ افغان مہاجرین بھی پاکستان میں موجود تھے، نتیجتاً وہ سب پاکستان کے خلاف ہوکر مسلح ہو گئے اور حکومت پر حملے کرنا شروع کر دئیے۔
پہلی بار فوج کو اپنے قبائلی علاقوں میں جانا پڑا
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جب قبائلی علاقوں میں اس وجہ سے حالات خراب ہوئے توپہلی بار فوج کو اپنے قبائلی علاقوں میں جانا پڑا، وہاں کے افراد بدلہ لینے پر اتر آئے، لیکن صرف یہی نہیں دوسری جانب سے امریکہ نے ڈرون حملے شروع کر دئیے۔ 2004ء سے 214 تک 50 مسلح گروپس پاکستان پر حملہ آور تھے۔
پاکستان پر امریکی طیاروں نے 480 ڈرون حملے کئے
امریکہ نے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے ہدف میں پاکستان پر 480 ڈرون حملے کئے، ڈرون حملے میں شدت پسندوں کےہدف کا نقصان کم ہوا لیکن ضمنی نقصان زیادہ ہوا۔ پاکستان کابھاری نقصان اسلئے ہوا کیونکہ ہم اس جنگ میں امریکہ کے اتحادی بن گئے۔ امریکہ میں افغانستان کے مسئلے کو لے کر پریشانی پائی جاتی ہے لیکن پاکستان کے نقصان کا کیا خیال ہے۔
آئی ایس آئی نہ ہوتی تو ہم بہت نیچے چلے جاتے
نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک ایسا وقت آیا کہ ہمارے لوگ پریشان ہو گئے کہ ہم اس صورتحال سے کیسے نکلیں گے، ہر طرف دھماکے ہو رہے تھے، اسلام آباد ایک قلعے کی طرح تھا، ان حالات سے ہم کیسے نکلے، اگر ہمارے پاس دنیا کی بہترین ایجنسی آئی ایس آئی نہ ہوتی تو ملک بہت نیچے چلا جاتا۔
افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے پر تعریف کی بجائے الزامات لگائے گئے
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا، بھاری نقصان بھی اٹھایا، اتنی قربانیوں کے باوجود کم از کم پاکستان کی تعریف کرنی چاہیے تھی، لیکن تعریف کی بجائے الٹا پاکستان پر الزامات لگائے گئے، ذرا سوچیں اتنا نقصان اٹھانے کے باوجود ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہو گا جب افغانستان کی اندر ہونے والی پیش رفت پہ ہمیں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے؟
2006ء میں ہی امریکی حکام پر واضح کردیا تھا کہ افغانستان کے مسئلےکا کوئی فوجی حل نہیں
وزیراعظم عمران کان کا کہنا تھا کہ 2006ء میں امریکہ گیا، میں نے وہاں سینیٹر بائیڈن، جان کیری اور دیگر حکام سے ملاقات کی، میں نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کو کوئی فوجی حل نہیں، صرف سیاسی طریقے اور بات چیت سے ہی مسائل حل ہو سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے فوجی حل مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔
تین لاکھ افغان فوج نے ہتھیار کیوں ڈالے، اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے
اگر دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ طالبان قبضہ کرنے میں کیوں کامیاب ہوئے، افغانستان کی 3 لاکھ اور اسلحے سے لیس آرمی نے ہتھیار کیوں ڈالے، یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے، دنیا کو اس پر گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، اس سے دنیا پر حقائق عیاں ہو جائیں گے۔
غیر مستحکم افغانستان پھر سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا
افغانستان کے مستقبل پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنے اور افغانستان کے اچھے مستقبل کیلئے عالمی برادری کو طالبان حکومت مو مضبوط اور مستحکم کرنا چاہیے، افغانستان کی نصف آبادی پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، انہیں تہنا چھوڑا گیا تو 90 فیصد آبادی کے خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہے، وہاں ایک برا انسانی بحران آجائے گا، جس کے پڑوسی ممالک سمیر پوری دنیا پراثرات آئیں گے۔ کیونکہ ایک غیر مستحکم افغانستان پھر سے بین الاقوامی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔ عالمی برادری طالبان کو انسانی حقوق کی پاسداری، جامع حکومت اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے وعدوں کی تکمیل کیلئے وقت دینا چاہیے، اس سے 20 سال کی لڑائی کا وقت بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو متحرک کریں اور افغانستان کی بہتری کیلئے آگے بڑھیں۔
"If the World Community incentivizes and encourages Taliban to walk-the-talk, it will be a win-win situation for everyone"
Prime Minister @ImranKhanPTI,
Keynote address at @UN General Assembly #UNGA 76#PMImranKhanAtUNGA pic.twitter.com/Vv8LqTjuto— Prime Minister's Office, Pakistan (@PakPMO) September 25, 2021
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کا دہرا معیار ہے جو کہ بھارت کے معاملے میں بہت نمایاں بھی ہے
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کرتےہوئے وزیراعظم عمران کا کہنا تھا کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے غیر قانونی اقدامات اٹھائے جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ بھی بدقسمتی ہے کہ عالمی برادری کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دہرا معیار ہے جو کہ بھارت کے بارے میں بہت نمایاں ہے کیونکہ بی جے پی حکومت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اجازت دی جا رہی ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ ہمسایوں کی طرح پرامن طریقے سے رہنا چاہتا ہے لیکن بھارتی حکومت کشمیر میں ظالمانہ کاروائیوں سے ماحول کو خراب کر ہ رہی ہے۔ 5 اگست 2019ء کے اقدامات کے بعد دو طرفہ بات چیت کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی بھارت کی ذمہ داری ہے۔بھارت فوجی طاقت میں اضافے اور جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں خطے کو غیر مستحکم کر رہا ہے، اسلئے پاکستان اور بھارت کو ایک اور تصادم سے روکنے کیلئے اقدامات بھی کئے جانے چاہئیں۔
اسلاموفوبیا کی بدترین شکل بھارتی حکومت، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اسلاموفوبیا کی روک تھام کیلئے عالمی مکالمے کا اہتمام کریں
اسلاموفوبیا کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد بعض حلقوں کی جانب سےدہشت گرد حملوں کو اسلام سے جوڑا گیا۔اس سے دائیں بازو، زینو فوبک اور پرتشدد قومیت پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گرد گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کو ہدف بنانے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔مزید ان کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا کی بدترین شکل اس وقت بھارتی راج ہے جہاں نفرت سے بھرپورفاشسٹ آر ایس ایس کا ہندوتوا کا نظریہ پروان چڑھ رہا ہے۔وہاں گائے ذبح کرنے پر تشدد کیا جاتا ہے، بھارت سے مسلمانوں کو نکالنے کیلئےاقدامات کئے جارہے ہیں، وہاں کی 20 کروڑ مسلم آبادی خوف کا شکار ہے۔
کرپٹ حکمران اشرافیہ کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک میں فرق بڑھ رہا ہے
اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں کرپٹ حکمران اشرافیہ کی لوٹ مارکی وجہ سے امیر اور غریب ممالک میں فرق بہت بڑھ رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 7 ٹریلین ڈالرزکے مالیاتی اثاثہ جات محفوظ ٹھکانوں میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چوری شدہ اثاثہ جات اور انکی غیر قانونی طور پر منتقلی ترقی پذیر ممالک پر گہرے اور منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔یہ ان کے پہلے سے محدود وسائل کو ختم کرتی ہے، غربت کی سطح کو مزید گھمبیر بناتی ہے بالخصوص منی لانڈرنگ، کرنسی پر دباؤ ڈالتی ہے اور اس کی قدر میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ جنرل اسمبلی کو اس انتہائی پریشان کن اور اخلاقی طور پر ناگوار صورتحال کی روک تھام کیلئے بامقصد اقدامات اٹھانے چاہئیں، ایسی پناہ گاہوں کو نادم کرنا اور ایک ناجائز مالیاتی بہاؤ کو روکنے اور بازیافت کیلئے جامع قانونی فریم ورک وضع کرنا اس سنگین اقتصادی ناانصافی کو روکنے کے لیے نہایت اہم اقدامات ہیں۔
کرپٹ حکمران اشرافیہ کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک میں فرق بڑھ رہا ہے
موسمیاتی تبدیلیوں پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ زمین کو درپیش بڑے خطرات میں سے ایک ہے، پاکستان سے مضر گیسوں کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا شماہر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہونے والے 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے پاکستان نے 10 بلین سونامی ٹری کا منصوبہ شروع کیا، اس کے علاوہ ماحول کے تحفظ کیلئے دیگر پروگرام بھی شروع کر رہے ہیں، قابل تجدید توانائی کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔
کورونا وبا اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئےجامع حکمت عملی ضرورت ہے
کورونا وبا کے پھیلاو اورعالمی معیشت کو ہونے والے نقصان پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا، عالمی معیشت کے سکڑنے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کو ایک جامع حکمت عملی درکار ہے۔ کوروناویکسین کی فراہمی شفافیت اور مساوات کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کیلئے مناسب سرمایہ دستیاب ہونا چاہیے، قرضوں کی جامع ری اسٹرکچرنگ، توسیع شدہ او ڈی اے، استعمال شدہ ایس ڈی آرز کی تقسیم نو اور ایس ڈی آرز کا وسیع تر حصہ ترقی پذیر ممالک کو مختص کرنے اور کلائمیٹ فنانس کی فراہمی کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
عالمی برادری کو واضح سرمایہ کاری کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جو غربت میں کمی کیلئے معاون ہوں، روزگار کو فروغ دیں، پائیدار بنیادی ڈھانچہ کو تشکیل دیں اور بلاشبہ ڈیجیٹل تقسیم کے خلاء کو دور کریں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سیکریٹری جنرل پائیدار ترقیاتی اہداف کے جائزے اور تیز ترین عملدرآمد کے لیے 2025ء میں ایس ڈی جی سمٹ طلب کریں۔