بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور چین کا نام لئے بغیر الزام تراشیاں کیں، اقوام متحدہ کے کردار پر بھی سوال اٹھا دئیے۔ خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے سب سےبڑے ادارے اقوام متحدہ کی ساکھ دن بدن خراب ہو رہی ہے، کورونا اور دیگر امور کے دوران اقوام متحدہ کا کردار موزوں نہیں تھا، اقوام متحدہ کو اپنے قوانین پر عملدرآمد اور عالمی اقدار کو مضبوط کرنا ہو گا۔ اگر اقوام متحدہ خود اپنے کردار کوموثر بنانا چاہتا ہے تو اسے اپنی فعالیت کو بہتر اور اعتماد سازی پر کام کرنا ہو گا۔
افغانستان کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں جاری پراکسی وار نے دہشت گردی کو ہوا دی، اسی وجہ سے افغانستان کے مسائل سنگین ہوئے اور بحران نے جنم لیا۔ انہوں نے پاکستان کا نام لئے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو چوکنا رہنا ہو گا کہ کوئی ملک افغانستان کی صورتحال کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ٹول کے طور پر استعمال نہ کرے۔ افغانستان کے بچوں، خواتین اور اقلیتوں کو ہماری مدد کی ضرورت ہے، اس کیلئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، لیکن یہ بھی دھیان رکھنا ہو گا کہ افغان سرزمین پھر سے دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بنے اور نہ ہی دہشت گردانہ کاروائیوں کیلئے استعمال ہو۔
سمندری پانیوں کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سمندر ہم سب کی مشترکہ میراث ہیں، انہیں Use کیا جانا چاہیے نہ کہ انہیں Abuse کیا جائے۔ ہمیں سمندری وسائل کا استعمال کرنا چاہیے، انہیں اپنے فائدے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ عالمی تجارت کی لائف لائن ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کا اشارہ بحیرہ جنوبی چین کی جانب تھا جس پر چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات ہیں، اور امریکہ کے بحری بیڑے ہمسایہ ممالک کے اتحادی ہونے کی آڑ میں چین کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور امریکہ کی جانب سے بیان بازیاں کی جاتی ہیں۔