لاہور کی سیشن عدالت نے 27 ستمبر 2021ء کو توہین رسالت کے جرم میں لاہور کی رہائشی سلمٰی تنویر کو سزائے موت اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔
کیس کی تفصیلات کے مطابق سلمٰی تنویر نے 2013ء میں توہین رسالت کی تحریروں پر مبنی پمفلٹس تقسیم کئے، اس وقت وہ پرائیویٹ اسکول کی پرنسپل تھیں۔ لاہور کے علاقے نشتر ٹاؤن کے امام مسجد نے توہین مذہب کے الزام میں خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا اور وہ آٹھ سال سے جیل میں تھیں۔
عدالت نے 22 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ سلمٰی تنویر نےعدالت کےسامنے کہا کہ وہ 2013ء میں حج پر جانا چاہتی تھیں لیکن اس سے قبل ہی وہ ذہنی طور پر بیمار ہو گئیں اور انہیں اس دوران ہونے والے واقعات سے متعلق کچھ یاد نہیں۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ خاتون نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا اور انجانے میں ہونے والی کسی بھی غلطی کی معافی بھی مانگی تھی۔ جج منصور قریشی نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ملزمہ کی ذہنی حالت درست نہ ہونے کے شواہد موجود ہیں، اور انہوں نے اسی بات کو بطورڈیفنس بھی لیا ہے تاہم ان کی بیماری کی نوعیت اتنی سنگین نہیں ہے۔
سلمیٰ تنویر نے کہیں بھی اپنے بیان میں یہ نہیں کہا کہ جو تحریر ان سے منسوب کی گئی ہے وہ انہوں نے لکھی ہی نہیں جب کہ ان کےخلاف11 گواہان نے یہی بتایا کہ یہ تحریر ان کی لکھی ہوئی تھی۔لہذا عدالت سلمٰی تنویر کوتوہین مذہب کا مرتکب جانتے ہوئے ان کو موت کی سزا کا حکم سناتی ہے۔
عدالتی فیصلےکے مطابق سلمٰی تنویر سزا کے خلاف 7 رو ز میں ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرسکتی ہیں۔