توہین عدالت کیس کی سماعت، رانا شمیم ،میر شکیل الرحمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے

13  دسمبر‬‮  2021

اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے، 20 دسمبر تک مؤخر کردی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جج گلگت بلتستان راناشمیم کیخلاف توہین عدالت کیس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ رانا شمیم خود کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ رانا شمیم کواصل بیان حلفی جمع کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا تھا، پتہ نہیں وہ آج اصل بیان حلفی جمع کرارہےہیں یانہیں؟۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ یہ محض توہین عدالت کا کیس نہیں بلکہ یہ میرا احتساب ہے، خبر کی سرخی سے یہ تاثر دیا گیا کہ ججز ہدایات لیتے ہیں،عوام کا اس عدالت پر اعتماد اس ایک خبر سے خراب ہوا ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ کل کوئی کسی جج کو خراب کرنے کیلئے بیان حلفی دے تو کیا اخبار اسے چھاپ دے گا، جس پر پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے کہاکہ صحافی کا کام حقیقت پر مبنی رپورٹ کو شائع کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کا اس عدالت پر اعتماد اس ایک خبر سے خراب ہوا ہے، برطانیہ میں اخبار کے ایڈیٹر ان چیف کو تین تین ماہ کی سزا ہوئی ہے، یہ عدالت عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا کیس سن رہی ہے اور عوام کا اعتماد ختم کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کوئی تین سال بعد زندہ ہو کر آ جائے تو اس کے پاس کوئی گراؤنڈ تو ہونی چاہیے، اس شخص کے بیان حلفی کی خبر آپ نے اخبار میں ایسے ہی چھاپ دی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر میں یہاں بیٹھا ہوں تو اپنے لیے نہیں بلکہ ہزاروں سائلین کے لیے بیٹھا ہوں، کوئی بھی جج میرے لیے اسٹیک ہولڈر نہیں بلکہ صرف سائلین سٹیک ہولڈر ہیں، یہ محض توہین عدالت کا کیس نہیں بلکہ یہ میرا احتساب ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم نے بیان حلفی میں لکھا کہ عدلیہ کی تضحیک کرنا ہوتی تو بیان حلفی پاکستان میں لکھ کر میڈیا کو جاری کرتا، رانا شمیم نے تسلیم کیا کہ ان کا بیان حلفی لیک کرنے کا مقصد عدلیہ کی تضحیک ہے۔اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ رانا شمیم نے اصل بیان خلفی خود لیک کر کے دیگر ذرائع سے لیک ہونے کے خدشات بیان کیے ساتھ ہی استدعا کی کہ عدالت توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کرے۔

انصار عباسی نے رانا شمیم کے تحریری بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے رانا شمیم نے نہیں بتایا تھا یہ privileged (خفیہ) بیان حلفی ہے مگر اپنے تحریری جواب میں وہ ایسا لکھ رہے ہیں۔ انصار عباسی نے کہا کہ جب میں نے رانا شمیم سے موقف لیا تو انہوں نے مجھے نہیں کہا کہ یہ ناقابل اشاعت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی خبر سے عوام کے اس عدالت پر اعتماد کو کتنی ٹھیس پہنچی ہے، یہ محض توہین عدالت کا کیس نہیں بلکہ یہ میرا احتساب ہے، آپ اس طرح اس ہائیکورٹ پر بداعتمادی نہیں پھیلا سکتے، چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر اس کے ذمہ دار ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں تو سیاسی بیانیوں کے لیے چیزیں تباہ کر دی جاتی ہیں، میرے خلاف کیا کیا بولا لکھا جاتا ہے فیملی مجھے بتاتی ہے لیکن اس کو میں نے کبھی اس طرح نہیں لیا۔

ہائیکورٹ نے کہا کہ انصار عباسی صاحب اب جو کہنا ہے بیان حلفی میں لکھیں، عدالت کو مطمئن کریں کیوں نا آپ پر چارج فریم کیا جائے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ پیر تک فریقین اپنا موقف بیان حلفی میں دے سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved