افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے امریکی جریدے ایسوسی ایٹڈ پریس کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغان صدر زشرف غنی کے کابل سے فرار ہونے کے بعد ملک کو کسی بڑے حادثے اور خلفشار سے بچانے کیلئے طالبان کو کابل میں داخلے کی دعوت دی۔
حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے دوحہ میں طالبان قیادت کے ساتھ سمجھوتہ طے کرنے کیلئے بات چیت کی تھی، جس میں کچھ شرائط کی بنیاد پر طالبان فورس کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جانی تھی، اور یہ معاہدہ 14 اگست کو حتمی طور پر طے ہونا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم دونوں (کرزئی، عبداللہ عبداللہ) نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی، جس سے اگلے روز ہم نے حکومت کی شراکت داری پر 15 نکات لیکر دوحہ روانہ ہونا تھا، اور اشرف غنی بھی اس سے متفق تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک طالبان کابل کے مضافات میں ڈیرے ڈال چکے تھے، لیکن حامد کرزئی نے کہا کہ قطر کی قیادت نے وعدہ کیا کہ جب تک یہ معاہدہ باقاعدہ طے نہیں ہوتا تب تک طالبان فورس کابل میں داخل نہیں ہو گی۔
حامد کرزئی نے انکشاف کیا کہ 15 اگست کی صبح وہ 15 نکاتی شرائط کی فہرست کے مسودے کو آخری شکل دے رہے تھےکہ ہم نے محسوس کیا کہ کابل میں بے چینی بڑھ رہی ہے، چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ طالبان نے حکومت سنبھال لی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے دوحہ فون کیا تو مجھے بتایا گیا کہ طالبان شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔ طالبان قیادت نے یہاں تک کہا کہ حکومتی عہدیدار اپنے عہدوں پر رہیں کیونکہ معاہدے کے بغیر ہمارا کابل میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔
حامد کرزئی نے کہا کہ سہہ پر 3 بجے کے قریب مجھے معلوم ہوا کہ اشرف غنی کابل سے فرار ہو گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر دفاع، پھر وزیر داخلہ کو فون کیا اور کابل پولیس کے سربراہ سے رابطے کی کوشش کی، مگر سبھی شہر چھوڑ چکے تھے، یہاں تک کہ پولیس چیف، کور کمانڈر سے لے کر فوجی یونٹوں تک تمام لوگ جا چکے تھے۔
حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اس وقت مجھے ملک کی صدارت سنبھالنے کی پیشکش کی جو میں نے قبول نہیں کی، اور ٹی وی پر بیان جاری کروایا ، تاکہ افغان عوام کو بتایا جائے کہ ہم سب یہاں موجود ہیں۔
حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی ملک سے فرار نہ ہوتے تو پرامن طور پر عبوری دور کا معاملہ طے ہو جاتا، کیونکہ ہم بے اگلی صبح دوحہ جانا تھا جہاں طالبان قیادت معاہدے کیلئے ہمارا انتظار کر رہی تھی۔