نگراں وزیر صحت پنجاب نے ڈاکٹر جاوید اکرم نےانجیکشن سے شوگر کے مریضوں کی بینائی جانے کی وجہ بتا دی۔
ڈاکٹر جاوید اکرم نے نیوز کانفرنس میں بتایا ہے کہ انجیکشنز کی ری پیکجنگ ٹھیک نہیں تھی، کولڈ چین بھی برقرار نہیں رکھی گئی۔
اُنہوں کہا کہ مریضوں میں انفیکشن گرام نیگیٹو کی وجہ سے ہوا، پی سی آر میں سارے ٹیسٹ نیگیٹو آئے۔
نگراں وزیرِ صحت نے بتایا ہے کہ اس انجیکشن سے انفیکشن کے گاہے بگاہے کیس آ رہے تھے، تقریباً 18 سال سے یہ انجیکشن استعمال ہو رہا تھا، یہ معاملہ پورے پنجاب میں پھیل گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ قصور میں پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا، یو کے کی ریگولیٹری اتھارٹی سے اس معاملے پر رہنمائی لی، بارش کی وجہ سے سیمپل صحیح پیک نہیں ہوا اور جس کمپارٹمنٹ میں رکھا گیا اس میں جراثیم تھے۔
ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ ہم نے انکوائری کا دائرہ کار بڑھایا، جعلی دوائیوں کی انکوائری سب سے مشکل تھی۔
اُنہوں نے بتایا کہ دوائی کمپنی سے بالکل ٹھیک آئی، ٹرانسپورٹ ہوتے ہوئے اس میں بارش کا پانی گیا جس کی وجہ سے دوائی خراب ہوئی، 6 لوگ تھے جو اسپتال سے ٹیکے لے کر جنوبی پنجاب میں دیتے تھے اور کارگو میں دوائی منتقل ہوتی تھی جس کی وجہ سے دوائی خراب ہو رہی تھی۔
نگراں وزیرِ صحت نے بتایا کہ ٹیکوں کا بیج جرمنی سے آیا تھا، پہلے سنگاپور سے آ رہا تھا، جو بیج روکے تھے اب وہ ریلیز کریں گے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ہم نے اس لیبارٹری کو بھی سیل کیا جہاں سے کارگو بس کے ذریعہ دوائیں بھیجی گئیں، بس کا کارگو نچلے حصّے میں ہوتا ہے، جس میں سیوریج کا پانی لگنے سے دوائیں خراب ہوئیں، کارگو بس سے دوائیں بھیجنے کی اجازت نہیں تھی۔
نگراں وزیرِ صحت نے بتایا کہ اسپتال میں دوائی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، 5 افراد کی دونوں آنکھیں ضائع ہوئی تھیں، اگر اس دوا سے ایسا ہوا تو ان ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی ہو گی اور لائسنس کینسل ہو گا۔
ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا کہ ہم نے ہیلتھ کمیشن کے ذریعے 48 مقامات کے وزٹ کروائے، ہم نے بہت سے آپریشن تھیٹر اور ایک اسپتال کو بھی سیل کیا، کوشش کریں گے کہ حکومتی سطح پر ٹیکے ایکسپورٹ کریں۔
اس حوالے سے ڈی جی ڈرگ کنٹرول ڈاکٹر سہیل کا کہنا ہے کہ اویسٹن انجیکشن کینسر کے لیے 20 سال سے استعمال ہو رہا ہے، بینائی متاثر ہونے کے کل مریضوں کی تعداد 65 تھی، اس معاملے پر انجیکشن بنانے والی کمپنی کو غلط کہنا ٹھیک نہیں ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ اویسٹن انجیکشن سے متعلق رپورٹ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو ارسال کر دی گئی ہے۔
ڈی جی ڈرگ کنٹرول ڈاکٹر سہیل نے کہا کہ ہم نے ٹیکوں کو فوری الزام دینا شروع کر دیا تھا لیکن باقاعدہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ دوائی کمپنی کی طرف سے ٹھیک آئی۔
اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ دوائی کو کارگو کے ذریعے بھیجا گیا، اس دن بہت بارش تھی تو بارش کا پانی دوائیوں میں گیا جس کی وجہ سے دوائی خراب ہوئی۔