نیوزی لینڈ کی صحافی شارلٹ بلیز نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے خواتین کے ساتھ سلوک کے بارے میں سوال اٹھاتی تھیں اور اب وہ اپنی حکومت کے خواتین کے ساتھ رویے کے بارے میں سوال اٹھا رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق شارلٹ بلیز اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ان کے اپنے ملک کی جانب سے کورونا وائرس کی پابندیوں کے باعث ان کو ملک واپس آنے سے روکنے کے بعد وہ افغانستان میں پھنسی ہوئی ہیں اور انہوں نے مدد کے لیے طالبان سے رجوع کیا ہے۔انہوں نے طالبان کے سینئر رہنما کے ساتھ بات کی جنہوں نے انہیں بتایا کہ وہ افغانستان میں آرام سے رہ سکتی ہیں۔
شارلٹ بلیز نے بتایا کہ انہیں طالبان نے کہا کہ آپ لوگوں کو بتادیں کہ آپ شادی شدہ ہیں اور اگر کوئی سنگین معاملہ ہو تو ہمیں آگاہ کریں اور پریشان نہ ہوں۔شارلٹ بلیز کا کہنا ہے کہ یہ بہت ستم ظریفی ہے کہ کبھی وہ طالبان کے خواتین کے ساتھ سلوک کے بارے میں سوال اٹھاتی تھیں اور اب وہ اپنی حکومت کے خواتین کے ساتھ رویے کے بارے میں سوال اٹھا رہی ہیں۔شارلٹ بلیز نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ جب طالبان ایک غیر شادہ شدہ، حاملہ خاتون کو محفوظ پناہ دیتے ہیں اس سے آپ کا مؤقف کمزور ہوتا ہے۔
اپنے کالم میں انہوں نے کہا کہ جب وہ ستمبر میں قطر گئیں تو انہیں اپنے ساتھی کے ساتھ حاملہ ہونے کا معلوم ہوا جو نیویارک ٹائمز کے ساتھ کام کرنے والے ایک فری لانس فوٹوگرافر ہیں۔شارلٹ بلیز کا کہنا ہے کہ قطر میں بغیر شادی کے جنسی تعلقات غیر قانونی ہیں اس لیے انہوں نے سوچا کہ انہیں واپس جانا چاہیے، انہوں نے کئی مرتبہ نیوزی لینڈ کے قرعہ اندازی کے نظام کے تحت بھی وطن واپس جانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکیں۔شارلٹ بلیز نے کہا کہ انہوں نے طالبان کے سینئر رہنما کے ساتھ بات کی جنہوں نے انہیں بتایا کہ وہ افغانستان میں آرام سے رہ سکتی ہیں۔
شارلٹ بلیز نے بتایا کہ انہیں طالبان نے کہا کہ آپ لوگوں کو بتادیں کہ آپ شادی شدہ ہیں اور اگر کوئی سنگین معاملہ ہو تو ہمیں آگاہ کریں اور پریشان نہ ہوں۔