پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کی آج ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو 27 فروری کے لانگ مارچ کا حصہ بننے کی دعوت دی، جسے ن لیگ نے مارچ کے اختتام پر اسلام آباد میں دھرنے سے مشروط کر دیا۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت دھرنے کی شرط پر آمادہ نہیں ہوئی۔
ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا، جس کیلئے وقت کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں بھی تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے، اس حکومت کو گھر بھیجنے کا آئینی رستہ یہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر ہماری تمام آئینی کوششیں ناکام ہوتی ہیں تو لانگ مارچ اور استعفوں پر یکساں موقف اپنائیں گے، لیکن ہمیں پہلے اس حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے آئینی آپشنز کا استعمال کرنا ہو گا۔
بلاول بھٹو نے ماضی میں تحریک عدم اعتماد کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی کی تجویز اس وقت مان لی جاتی تو آج عمران خان کی حکومت نہ ہوتی۔
شہباز شریف نے اس ملاقات میں اور بعد ازاں پریس کانفرنس میں بھی تسلیم کیا کہ ہماری پارٹی میں تحریک عدم اعتماد کیلئے رائے مختلف تھی، لیکن ملاقات میں انہوں نے کہا کہ آپ کی تجویز قابل عمل ہے، مجھے میاں نوازشریف کے ساتھ مشاورت کیلئے وقت دیں، پھر اس پر بھی کوئی لائحہ عمل بنا لیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت نے رابطے میں رہنے والے حکومت کے 20 اراکین اسمبلی کے نام بھی پیپلز پارٹی کو بتائے، اور مریم نواز کے ذریعے آصف علی زرداری کی میاں نوازشریف سے پیغام رسانی بھی کرائی گئی۔
ذرائع کے مطابق 2023ء کے انتخابات کے متعلق دونوں جماعتوں نے متفقہ حکمت عملی بنانے پر بھی اتفاق کیا۔