ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے امریکہ ، جرمنی اور آٹھ دیگر مغربی ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی جب انہوں نے جیل میں بند قیدی کی حمایت میں مشترکہ بیان جاری کیاتھا۔
دس سفیروں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا، بیان میں کہا گیا تھا کہ عثمان کافالا کی مسلسل حراست ترکی پر غلط اثرات مرتب کر رہی ہے۔جو انہوں نے بڑے پیمانے پر اپنے ترک سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پھیلایا تھا ۔ عثمان کافالا جو 2013 میں حکومت مخالف احتجاج اور 2016 میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث رہے تھے۔ مشترکہ بیان میں امریکا، جرمنی، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے اور سوئڈن نے عثمان کافالا کیس کے جلد اور انصاف پر مبنی حل کا مطالبہ کیا تھا۔
اس بیان کے آنے کے بعدرجب طیب اردوان نے صحافیوں کو بتایا کہ میں نے وزارت خارجہ کو بتایا ہے کہ ہم ملک میں ان کی مزید میزبانی نہیں کر سکتے۔ترکی کے نجی نشریاتی ادارے این ٹی وی کے مطابق ترک صدر نے کہا کہ کیا یہ آپ کا کام ہے کہ آپ ترکی کو سبق سیکھائیں؟ آپ کون ہیں؟
عثمان کافالا پیرس میں پیدا ہوئے وہ 2013 میں حکومت مخالف احتجاج اور 2016 میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث رہے تھے۔ 2017 سے، جرم ثابت ہونے پر وہ جیل میں ہیں۔
عثمان کافالا کو 2020 میں غازی احتجاج کے الزامات سے بری کردیا گیا تھا لیکن انہیں گھر پہنچنے سے قبل ہی دوبارہ 2016 کی فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے نگراں ’یورپ کونسل‘ کی جانب سے ترکی کو حتمی انتباہ جاری کیا گیا کہ وہ 2019 کی یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے حکم کی تعمیل کرے تاکہ عثمان کافالا کو زیر سماعت مقدمے کی رہائی مل سکے۔
اگر ترکی ایسا کرنے میں ناکام رہاتو 30 نومبر سے شروع ہونے والی اسٹراس برگ میٹنگ میں تو کونسل انقرہ کے خلاف ووٹ دے سکتی ہے۔