تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ملزمان کے وکلا اور پراسیکیوشن کے دلائل مکمل کر لیے گئے۔
سماعت کے آغاز میں مدعی کے وکیل نثار اصغر نے عدالت کے سامنے حتمی دلائل دیے جبکہ گزشتہ سماعت میں تمام ملزمان کے وکلاء نے حتمی دلائل مکمل کر لیے تھے۔مدعی وکیل نثار اصغر نے دلائل میں کہا کہ ملزمان کے وکیل کے دلائل تھےکہ ذاکرجعفر اور عصمت آدم جی کی حد تک تفتیشی افسر کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ والدین خود مانتے ہیں کراچی سے آئے، تین دفعہ تھانے گئے، پولیس کو لائسنس دیا اور پھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔
مدعی کے وکیل نے دلائل دیے کہ یہ وقوعہ عید کے دن ہو رہا ہے اور وہ بھی عید الاضحی جس میں تین چھٹیاں ہوتی ہیں۔ سی ڈی آر اور ڈی وی آر وکلا کے پاس تھی ثابت کر دیں مدعی دس بجے سے پہلے جائے وقوعہ پر تھا۔ شوکت مقدم 11 بج کر 45 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچا۔ شوکت مقدم کا بیان ہے قتل کے حوالے سے دس بجے آگاہ کیا گیا اور 11 بج کر 45 منٹ پر پولیس نے بیان لکھا۔ملزمہ عصمت آدم کے وکیل اسد جمال نے جوابی دلائل میں کہا کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ تفتیش چلتی رہی لیکن کال ڈیٹا کی بات نہیں کی۔ ہم نے تو کال ڈیٹا ریکارڈ کو مانا ہی نہیں ہے۔ سوال کیا گیا نور مقدم کی والدہ کو شامل تفتیش کیا گیا۔ پراسیکیوشن کے گواہ نے ہی یہ بتایا لیکن اس کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا۔
اسد جمال کے جوابی دلائل ختم ہونےکے بعد ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے جوابی دلائل دیے۔ پروسیکیوشن بتا دے کہ گواہان میں سے کس نے واقعے کی اطلاع دینے کا کہا، کیا گواہ نے خود قتل ہوتے دیکھا، بشارت اللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ قتل کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے
نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے فیصلہ محفوظ کرتے کہا کہ نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ 24 فروری کو سنایا جائے گا۔بیس جولائی 2021 کو نورمقدم کو اسلام آباد میں قتل کیا گیا تھا۔