اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو بلوچستان کے طلباء اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کی گرفتاری سے روک دیا ۔
ایمان مزاری کی جانب سے عدالت میں دائردرخواست میں مئوقف اختیارکیا گیاقائد اعظم یو نیورسٹی کا طالب علم لاپتہ ہوا جس کیلئے احتجاج جاری تھا کے مظاہرین پرپولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا جس میں بے شمار طالب علم زخمی ہوے ،ان کا مزید کہنا تھاکہ انہیں ایف آئی آرمیں معلوم ہوا کہ ان پر بغاوت کے دفعات شامل ہیں، پولیس مقدمہ کی کاپی بھی دینے سے انکاری ہے اورمجھےگرفتاری کا بھی خدشہ ہے،درخواست میں سیکٹری داخلہ،آئی جی اسلام آباد،ڈسٹریکٹ مجسٹریٹ اورتھانہ کوہسارکے ایس ایچ اوکوفریق بنایا گیا ۔
پولیس حکام نےعدالت کو بتایا کہ صرف احتجاج کرنے والے طلبا ہی نہیں، پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
اس دوران جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسارکیا کہ یہ احاطہ عدالت میں کیا ہورہا ہے، بلوچستان کے طلبہ کی آوازسنی جانی چاہیے،بغاوت کا مقدمہ توان کے خلاف کیا جانا چاہیے جنہوں نے طلبہ کی آواز کو دبایا،یہ جمہوری ملک ہے یہاں آئین سے کسی کو تجاوزنہیں کرنے دیں گے ۔
عدالت نے پولیس کو ایمان مزاری کو گرفتار کرنے سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں کسی کو بھی گرفتار نہ کیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ عدالت ایک کمیشن تشکیل دے، یہاں پر ایک آئین ہے اورعدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کرے گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 7 مارچ کوسیکریٹری داخلہ، چیف کمشنراورآئی جی اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔