پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی کنول شوزب اسلام آباد ہائیکورٹ میں رو پڑیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پی بی اے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کی درخواستوں پر سماعت کی، جس میں پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی کنول شوذب عدالت میں پیش ہوئیں۔
عدالت کے روبرو کنول شوزب نے کہا کہ میں پبلک آفس ہولڈر ہوں، مجھے بھی اظہار رائے کی آزادی ہے، کیا میں بنی گالہ میں سروسز دے کر ایوان میں آئی ہوں؟ میرے بارے میں صحافیوں نے وی لاگز میں ایسی باتیں کیں، کیا اسے اظہار رائے کی آزادی کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کے ساتھ سو کر آئی ہے، جو مجھ پر الزام لگا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہ میں امیر زادی ہوں غنڈا گیر ہوں، میرے خلاف طرح طرح کے وی لاگ کئے جاتے ہیں، میری بھی فیملی ہے، میں کس کے پاس جاؤں؟
کنول شوزب کا کہنا تھا کہ میرے کسی اور کیساتھ سونے والے وی لاگ کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا، لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔ میرے خلاف ایک مہم چلائی گئی، رضی نامہ کی باتوں پر لوگ کیا کچھ کہہ رہے ہیں، کیا ہماری کوئی عزت نہیں؟
یہ کہتے ہوئے کنول شوزب عدالت میں رو پڑیں۔ عدالت نے انہیں نشست پر تشریف رکھنے کی ہدایت کی، لیکن چیف جسٹس کے بار بار روکنے کے باوجود کنول شوذب نے روتے ہوئے بات جاری رکھی۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اچھے خاصے سینئر صحافی ہیں جنہوں نے یہ وی لاگز کئے، میں مرد ہوں ہم ان خواتین کی جگہ پر جا کر تصور بھی نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ سب کچھ سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، سیاسی جماعتوں نے کیوں سوشل میڈیا ٹیمیں رکھی ہوئی ہیں؟
کنول شوزب نے کہا کہ آپ سب کو بولنے کی آزادی دیتے ہیں مگر مجھے بولنے کی آزادی نہیں، ہماری کلچرل اقدار ہیں، میں یورپ نہیں، پاکستان میں رہتی ہوں، کیا غیرت کے نام پر کوئی جا کر اس شخص کو گولی مار دے۔