وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ حکومت نے پے درپے چیلنجز کے باوجود مؤثر حکمت عملی سے ملکی معیشت بہتر بنائی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا پاکستان پیٹروکیمیکل سمپوزیم سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ کسی شعبے میں سرمایہ کاری سے متعلق واضح پالیسی موجود نہیں ہے، پیٹروکیمیکل سمپوزیم معیشت کی بہتری کے لیے روڈ میپ بنائے گا۔
وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت ملی تو جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکسز کی شرح بہت کم تھی، برآمدات اور درآمدات میں توازن نہیں تھا، معیشت کی شرح نمو بھی تنزلی کا شکا ررہی، جاری اخراجات اور وسائل سمیت آمدن میں عدم توازن تھا، 2018 میں پی ٹی آئی حکومت کو آتے ہی 20 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا، دوست ممالک سے مدد ملی جو کہ ناکافی تھی۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ معیشت کو ڈسکاؤنٹ ریٹ، روپے کی شرح تبادلہ اور بھاری ادائیگیوں سے مسائل کا سامنا رہا ، لیکن حکومت نے بہتراقدامات کرکے تمام مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ دنیاکو دو سال قبل کورونا وباء کا سامنا کرنا پڑا، حکومت کو 2.7 ملکی جی ڈی پی کی شرح نمو ملی، معیشت کی بہتری کے لیے شرح نمو کو 6 فیصد تک لانے کے اقدامات کیے گئے، حکومت نے مؤثر حکمت عملی سے معیشت بہتر بنایا ہے۔
سینیٹر شوکت ترین کا کہنا تھا کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے بہتر اقدامات کیے ہیں، عمران خان کو مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، عمران خان نے کورونا کے دوران جو پالیسی اپنائی دنیا نے اس کو سراہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری معیشت کئی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے، 60 کی دھائی میں ہماری معیشت ایشیاء کی چوتھی بڑی معیشت تھی، وسیع تر نیشنلائزیشن کرنے سے مختلف مسائل ہوئے، پھر افغان جنگ نے ملکی معیشت کو شدید مسائل سے دوچار کیا، دوسری افغان جنگ کے بھی ملکی معیشت پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی معیشت نے مسلسل ان چیلنجز کے باعث نقصانات اٹھائے، اسٹرکچرل مسائل اور بروقت اقدامات نہ کرنے سے معیشت کی سمت درست نہ ہو سکی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مستحکم معاشی ترقی کی ضرورت ہے، ہم غریب طبقے کو براہ راست فنڈز دے رہے ہیں، زراعت کی ترقی کے بغیر معشیت ترقی نہیں کر سکتی۔