چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کوئی چھوٹی بات نہیں، کچھ لوگ تو فوراً آرٹیکل 6 پر چلے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے کہا کہ ابھی تک نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی نہیں ہوسکی۔ اگرمناسب سمجھیں تو نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظارکریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے تھے۔ نئے اٹارنی جنرل نے کوئی مؤقف دینا ہوگا تو دے دیں گے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ میرے خیال میں ہمیں صدارتی ریفرنس کو چلانا چاہیے۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے بھی درخواست دائرکی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 10 سے 15 ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں، ایسے فیصلوں کا احترام چاہتے ہیں، عدالت اپنا آئینی کام سر انجام دیتی ہے، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے، عدالت کیوں آپ کے سیاسی معاملات میں پڑے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل دیے کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے، پیسے دیکر ضمیر نہیں بیچا جاسکتا ، پیسے دیکر تو اراکین اسمبلی سے ملک مخالف قانون سازی کرائی جاسکتی ہے، پنجاب میں جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہے، تمام اسٹیک ہولڈر عدالت کی جانب دیکھ رہے ہیں، اب تو منحرف اراکین عوام میں بھی نہیں جاسکتے، سینیٹ الیکشن کے بعد بھی ووٹ فروخت ہورہے ہیں۔تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے چئیرمین عمران خان نے عدالت سے منحرف اراکین کی تاحیاتی نااہلی کی بھی استدعا کی ہے۔
صدرپاکستان ڈاکٹرعارف علوی نے پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والوں کی سزا کے تعین کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا۔وکیل تحریک انصاف بابر اعوان نے عدالت سے کہا کہ تحریک انصاف کی درخواست پر نوٹس کردیں جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ درخواست جس ایشو سے متعلق ہے اس پر عدالت میں بات ہو رہی ہے۔ جن کو نوٹس کرنا ہے وہ تمام فریقین کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ آئینی بحث کا مقدمہ ہے۔ صدراتی ریفرنس آیا ہے اس کو چلائیں گے۔