افغانستان میں طویل خشک سالی اور سنگین معاشی بحران کے باعث غیر یقینی صورتحال ہے، اقوام متحدہ

10  مئی‬‮  2022

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں طویل خشک سالی اور سنگین معاشی بحران کے باعث بھوک کی غیر معمولی صورت حال بدستور برقرار ہے جس کی وجہ سے زندگی اور معاش کوخطرات لاحق ہیں۔

اقوام متحدہ – (اے پی پی): اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری اور فروری میں فوڈ سکیورٹی اینڈ ایگریکلچر کلسٹر کے شراکت داروں ،اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) کے تجزیے میں بتا یاگیاہے کہ افغانستان میں تقریباً 19.7 ملین افراد جو افغانستان کی تقریباً نصف آبادی بنتی ہے کو شدید بھوک کا سامنا ہے۔

تجزیے پر مبنی رپورٹ کے مطابق ملک کے شمال مشرقی حصے میں خوراک کے عدم تحفظ کی تباہ کن کیفیت کا بھی انکشاف ہوا ہے جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہورہے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ انسانی امدادسےافغانستان میں شدید سردیوں کے دوران غذائی تحفظ کی تباہی کو روکنے میں مدد ملی لیکن بھوک اب بھی غیر معمولی سطح پر برقرار ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے نمائندہ رچرڈ ٹرنچ ہرڈ نے اس ملک میں غذائی تحفظ کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں انسانی امداد اشد ضروری ہے کیونکہ بکھرے ہوئے زرعی ذریعہ معاش کی بحالی اور کسانوں اور دیہی کمیونٹی کو ملک بھر میں جدوجہد کرتی دیہی اور شہری منڈیوں سے دوبارہ جوڑنے کی ضرورت ہےاور اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

آئی پی سی کسی ملک میں غذائی عدم تحفظ اور شدید غذائی قلت کے حالات کی شدت اور شدت کا تعین کرنے کے لیے طریقہ کار کا ایک سیٹ ہے جو 2004ء  میں تیار کیا گیا تھا۔رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی کہ جون سے نومبر تک افغانستان میں غذائی تحفظ میں معمولی بہتری آئے گی، شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد کم ہو کر 18.9 ملین رہ جائے گی جس کی وجہ اس دوران جزوی طور پر آنے والی گندم کی فصل کی پیداوار آنا شروع ہو جاتی ہے جو مئی سے اگست تک جاری رہتی ہے نیز رواں سال خوراک اور زرعی امداد میں اضافہ بھی غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی کی وجہ ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی کنٹری ڈائریکٹر اور افغانستان مین اقوام متحدہ کی نمائندہ میری ایلن میک گرویرٹی نے کہا ہےکہ غذائی امداد اور ہنگامی انسانی امدادافغانستان کے لوگوں کے لیے لائف لائن ہیں۔ ہم نے چند مہینوں میں انسانی خوراک کا دنیا کا سب سے بڑا آپریشن شروع کیا جس میں گزشتہ سال اگست سے 16 ملین سے زیادہ لوگوں کو غذائی امداد فراہم کی گئی ۔ تاہم رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ طویل خشک سالی اور معاشی بحران ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور معاش کو خطرے میں ڈال رہا ہے اس لیے کوئی بھی فائدہ محدود ہوگا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبہ غور میں 20 ہزار سے زیادہ لوگ سخت سردی کے طویل عرصے اور تباہ کن زرعی حالات کے نتیجے میں بھوک کی تباہ کن صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ آنے والی فصل لاکھوں کے لیے کچھ ریلیف لائے گی لیکن یہ ریلیف بہت سے لوگوں کے لیے صرف قلیل مدتی ہوگی۔یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں افغانستان کی گندم کی سپلائی، غذائی اجناس، زرعی اشیا اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔

مزید برآں گزشتہ چند ماہ کے دوران آبپاشی کے لیے بیج، کھاد اور پانی تک رسائی محدود رہی ، مزدوری کے مواقع کم ہوئے ہیں اور لوگوں پر گزر بسر کے لیے بہت زیادہ قرضے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسانوں، ملرز اور بیکریوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، خواتین کو تربیت دے رہے ہیں اور مقامی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ملازمتوں کے موقع پیدا کر رہے ہیں کیونکہ افغانستان کے لوگ ملازمتوں کو ترجیح دیں گے۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved