اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کسی سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگز سے شکایت نہیں ہونی چاہیے اور الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے ہم نے انہیں کام سے نہیں روکا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30روز میں کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں الیکشن کمیشن، عوامی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے وکلا اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے عدالت میں تحریری رپورٹ پیش کی گئی جس کے بعد چیف جسٹس نے کمیشن کےوکیل سے سوال کیا کہ یہ بتائیں کیس 8 سال سے کیوں زیرالتوا ہے؟ یہ تو ہرسال کا پراسس ہے، اسی سال ہونا چاہیے، 8 سال سے کیوں چل رہا ہے؟کیا قانون کے مطابق ہرسال ہر سیاسی جماعت اپنے آڈٹ اکاؤنٹ جمع کراتی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن ہرسال اسکروٹنی کرتا ہے؟
الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر لاء نے عدالت کو بتایا کہ ہم قابل اعتراض اکاؤنٹس کی اسکروٹنی کرتے ہیں۔
اس پر عدالت نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جلسہ کرے تو اس کے اخراجات کی تفصیل بھی دینی ہوتی ہے، لگتا ہے الیکشن کمیشن سالانہ بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے آڈٹ کی اسکروٹنی نہیں کررہا، پہلی بات تو یہ ہے یہ کیس 8 سال چلنا نہیں چاہیے اور اگرکسی سیاسی جماعت کے اکاؤنٹس قابل اعتراض تھے تو صرف ان سے جواب لیتے، اگرکوئی قابل اعتراض اکاؤنٹس تھے تو سیاسی جماعت کو نوٹس کرتے، ثابت ہوجاتا تو اس جماعت کے اکاؤنٹس کو آپ بحق سرکار ضبط کرلیتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اس طرح توپھرکوئی پارٹی نہیں بچے گی،ایک پارٹی دوسری کےخلاف پروسیڈنگز چلاتی رہے گی۔
عدالت کا کہنا تھاکہ اسکروٹنی کمیٹی نے کہا ہے کہ اکبرایس بابرکی دی گئی معلومات قابل تصدیق نہیں ہے، اگر الیکشن کمیشن نے اعتراضات لینا شروع کردیے تو یہ ناختم ہونے والا معاملہ ہوجائےگا، یہ صرف فارن فنڈنگ نہیں بلکہ فنڈنگ کو ڈیکلیئر کرنا ہوتا ہے جو عدالت کے سامنے ظاہر ہوا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو پروسیڈنگز سے نہیں روکا، 2014 کا پہلے ، پھر2018 کاکیس نمٹانا ہے، الیکشن کمیشن اورجماعتیں جواب جمع کرائیں، سیاسی جماعتوں کے معاملے میں لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے لیکن یہاں حقیقت اس سے برعکس ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگز سے شکایت نہیں ہونی چاہیے، سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا رول ہے، عدالت یقینی بنائے گی کہ کسی کوکوئی شکایت نا ہو، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، ہم نے انہیں کام سے نہیں روکا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو آئندہ سماعت تک اپنا جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 30 مئی تک ملتوی کردی۔