سپریم کورٹ نے 6 ہفتوں کے دوران ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالے گئے افراد کی فہرست طلب کرلی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے تحقیقاتی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے حکومت شخصیات کی جانب سے زیرالتوا مقدمات کی تحقیقات میں مداخلت پر اثر انداز ہونے کے تاثر پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ کل (19مئی) سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹررضوان ایک قابل افسرتھے،انہیں کیوں ہٹایاگیا؟ای سی ایل سے 4 ہزارسے زائدافرادکے نام نکالے گئے،نام نکالنے کاطریقہ کارکیاتھا؟جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بظاہریہ لگتاہے تقرریاں اورتبادلے جان بوجھ کرکیے گئے،عدالت نے کہاکہ اخباری تراشوں کے مطابق ای سی ایل سے نام نکلنے پرہزاروں افرادکافائدہ ہوگا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم ان معاملات کوجانناچاہتے ہیں، اخبارکی خبرکے مطابق ای سی ایل رولزمیں تبدیلی سے 3 ہزارافرادکوفائدہ ہوگا،ہم ایسی خبریں 1 ماہ سے دیکھ اورپڑھ رہے ہیں۔
جسٹس علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ای سی ایل سے نام براہ راست نہیں نکال سکتے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہاں پوائنٹ سکورنگ کرنے کیلئے اکٹھے نہیں ہوئے، عدالت فیصلہ کرتے ہوئے کبھی نہیں گھبرائی، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے ۔ای سی ایل کی پالیسی میں ردو بدل سے متعلق بھی جاننا چاہتے ہیں، جاننا چاہتے ہیں کہ کس طریقہ کار سے ای سی ایل میں موجود افرادکوفائدہ پہنچایا جارہاہے ، کوئی رائے نہیں دے رہے صرف حقائق جاننا چاہتے ہیں۔