لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی کے ارکان نے ہمارے سامنے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کو جعلی کہا تو ان پر توہین عدالت لے گی کیونکہ یہ الیکشن کروانے کا حکم دو رکنی بنچ نے دیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس صداقت علی کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے حمزہ شہباز کی حلف برداری کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی، جس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس اور پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی پیش ہوئے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ حمزہ شہباز غیر قانونی اور غیر آئینی وزیر اعلیٰ ہیں، آرٹیکل 69 کے تحت اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ اس پر جس پر عدالت نے کہا کہ اب سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آ چکا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک ونڈو اوپن ہو گئی ہے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حلف نہیں لے سکتا۔
تحریک انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ گورنر حلف لینے سے انکار کر سکتا ہے، کہ وہ ان وجوہات پر حلف نہیں لے سکتا، انہوں نے کہا کہ پوری دنیا نے دیکھا اسمبلی کے اجلاس میں کس طرح ڈنڈے سوٹے استعمال ہوئے، 23 اپریل کو گورنر عمر چیمہ نے صدر کو رائے لینے کیلئے پہلا خط لکھا۔
عدالت نے کہا کہ آئین تو کہیں نہیں کہتا کہ گورنر صدر سے رائے لے گا جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 101 کے تحت گورنر صدر مملکت سے رائے لے سکتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے چیف منسٹر کے الیکشن میں مس کنڈکٹ کیا اور اجلاس ملتوی کئے بغیر ادھورا چھوڑ کر چلا گیا، ڈپٹی اسپیکر زخمی ہو جائے یا کچھ بھی ہو جائے وہ اجلاس چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔
تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے آدھے ممبران کہتے ہیں الیکشن جعلی ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ یہ ہمارے سامنے کہہ دیں تو توہین عدالت لگ جائے گی، الیکشن کروانے کا حکم دو رکنی بنچ نے دیا تھا، جسے ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔