امریکا کی چین پالیسی اور پاکستان

9  جون‬‮  2022

روس ہم تمہارے ساتھ ہیں، یہ الفاظ چین کے شہر ہی ہائہے کے اُفق پر روسی زبان میں اس وقت جگمگارہے تھے جب امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے چین سے متعلق امریکی پالیسی کا اعلان کیا جارہا تھا۔ 

ہی ہائہے دریائے آمور کے جنوبی کنارے کے ساتھ واقع ہے اور اس کے بالکل سامنے روس کا شہر بلاگووشینسک واقع ہے جہاں رہنے والوں کی بڑی تعداد چینی زبان سے واقف ہے۔قربت کا احساس دلانا مقصد تھا،اسی لیے غلط ہجے ہی کے ساتھ سہی مگر پڑوسیوں کو روسی زبان میں وہ پیغام دیا گیا جو دریا کی موجوں پر گھنٹوں جھل مل کرتا رہا۔

ہزاروں میل دور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاستدانوں،دانشوروں اور محقیقن سے خطاب میں انٹونی بلنکن چین پر واضح کر رہے تھے کہ وہ یوکرین جنگ میں روس کا ساتھ دینے سے باز رہے۔

انٹونی بلنکن نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ‘اگرچہ صدرپیوٹن کی جنگ جاری ہے، ہماری توجہ ورلڈ آرڈر کو چین کی جانب سے درپیش سب سے سنجیدہ نوعیت کے طویل البنیاد چیلنج پر رہے گی کیونکہ اقتصادی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے چین ہی وہ واحد ملک ہے جو ورلڈ آڈر تبدیل کرسکتا ہے یعنی جنگ عظیم کے بعد سے امریکا نے دنیا کو جس سانچے میں ڈھالا ہے، اسے بدل سکتا ہے۔اسی لیے انٹونی بلنکن نے چین کے گرد ‘تزویراتی ماحول’ بنانے یعنی سادہ لفظوں میں ‘گھیراتنگ’ کرنے کی بات کی۔

چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے امریکا کو جہاں یورپ اور افریقا وہیں ایشیائی ممالک کے کردار کی بھی ضرورت ہے ۔ جنوب ایشیا میں بھارت کا کردار تو پچھلی دو دہائیوں سے واضح تر ہوتا رہا ہے، سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں امریکا کو پاکستان سے کیا توقعات ہیں؟

یہ توقعات جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ امریکی حکومت چین کا نظام تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پچھلے ایک عشرے کے دوران معاشی طور پر چین سے جڑے ممالک پر واضح کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ‘بیلٹ اینڈ روڈ گرینڈ منصوبے سے بچیں’ کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے نزدیک یہ موت کا ایسا دلفریب کنواں ہے جس کی جانب حکمراں کھنچے چلے آتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ انجام ‘ملک کی خودمختاری کے سودے’ پر ہوگا۔

یہ الگ بات ہے کہ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے میں جس ہمبن ٹوٹا بندرگاہ کی مثال دی جاتی ہے وہ زمینی حقائق سے یکسر مختلف ہے، سری لنکا کی معاشی ابتری کا ذمہ دار چین سے کہیں زیادہ خود سری لنکا ہے جو مختلف مد میں چینی بینکوں ہی نہیں کئی دیگر عالمی اداروں سے قرض لینے کی دھن میں یہی بھول گیا تھا کہ رقم واپس نہ دی تو ملکی خودمختاری پر آنچ آئے گی۔

بہرحال ،کسی ملک کی خودمختاری صلب ہونے سے امریکا کے دل میں درد ہو نہ ہو اپنے اتحادیوں یا ممکنہ اتحادیوں کا وزن دوسرے پلڑے میں گرنا واشنگٹن کے لیے تکلیف دہ ضرور ہے۔

امریکا اس بات سے واقف ہے کہ مختلف شعبوں میں پاک امریکا تعلقات کسی بھی صورت پاک چین تعلقات کا متبادل نہیں ہوسکتے لیکن واشنگٹن یہ بھی جانتا ہے کہ کسی بھی ملک کے اقتصادی تعلقات ہی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے کا زینہ بنتے ہیں۔

بات معاشی تعلق ہی تک محدود رہے تو بھی اقتصادی بحران کا شکار پاکستان جیسے ممالک کو سی پیک کا متبادل دیے بغیر امریکی خواہشات پوری ہونا ممکن نہیں ۔

یہ درست ہے کہ آئی ایم ایف یا عالمی بینک پاکستانی معیشت کی لائف لائن ہیں مگر اس رقم سے جڑی شرائط قوم کا گلا بھی گھونٹ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک ان بظاہر پُرکشش منصوبوں کے لیے آسانی سے رقم بھی نہیں دیتے جو پاکستان جیسے ممالک بنانا چاہتے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے اس ملک میں جہاں بے روزگاری کی شرح تقریباً ساڑھے پانچ فیصد ہو، ترقیاتی بجٹ پر ہر بار کوئی نہ کوئی آفت آن پڑے اور مختص رقم کسی نہ کسی مد میں خرچ کرنا پڑجائے وہاں سیاستدان بے روزگاری کے خاتمے، عوام کو سہولت یا ترقی کے نام پر کوئی تو متبادل ڈھونڈیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے بیرون ممالک کے پہلے دورے میں اگر امریکا کا انتخاب کیا تو وطن میں قدم رکھنے سے پہلے سیدھا چین جانے کو ترجیح دی۔ بیجنگ نے بھی قرضوں پر شرح سود فوری طور پر کم کر کے یہ باور کرایا کہ اس کا تعلق اسلام آباد کے کس قدر مفاد میں ہے۔

پاک چین تعلق کو پچھلے چند برسوں میں پاک امریکا تعلق کی سرد مہری نے بھی مضبوط کیا ہے۔ اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی 2018 میں ایک اور 2019 میں دوبار چین کا دورہ کیا جس میں چین کے صدر اور وزیراعظم سے ملاقاتیں کی گئیں۔ کورونا نے دو سال سفارتی سرگرمیاں محدود رکھیں تاہم فروری 2022 میں بھی عمران خان بیجنگ ہو آئے۔ اس کے برعکس امریکا کے سابق صدر ٹرمپ سے ایک باضابطہ ملاقات واشنگٹن اور دوسری ڈاؤس میں منعقد عالمی اقتصادی فورم کی سائیڈ لائن پر ہوئی۔

کہا جاتا ہے کہ سربراہ سطح کی ملاقات باہمی تعلقات کو اگلی منزل تک لے جاتی ہے جبکہ نچلی سطح کی بات چیت تعلقات کو محض استوار رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ جب بائیڈن نے اقتدار سنبھالا تو ملاقات تو دور کی بات امریکی وزارت خارجہ دوسرے جھمیلوں میں اس قدر الجھی رہی کہ پاکستانی وزیراعظم سے صدر بائیڈن کی ٹیلےفون کال طے کرنے تک کا خیال نہ آیا، بار بار سوال اٹھائے جانے پر بھی یہی سوچا جاتا رہا کہ چین اور روس جیسے ممالک سے متعلق پالیسی بنالی جائے اور کورونا کے اثرات سے معیشت کو نکالا جائے۔

امریکا کی جانب سے چین پالیسی کا اعلان ایسے وقت بھی کیا گیا جب پاکستان میں ایک نئی حکومت ہے۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کی پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹو سے ملاقات تو ہوگئی، وزیراعظم شہباز شریف سے صدربائیڈن کی ٹیلےفون کال کی ضرورت تاحال محسوس نہیں کی گئی۔فوجی امداد کی بحالی تو شاید بہت دور کی بات ہے۔

ایسی صورتحال میں چین کا’ گھیرا تنگ’ کرنے کیلئے امریکا کی خواہش کچھ بھی ہو، پاکستان جیسے ممالک کے لیے چین سے تعلق کمزور کرنا نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور رہےگا۔

امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کیسنجر نے خوب کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو ‘ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو روس کو چین کے ساتھ دائمی اتحاد پر مجبور ہی نہ کردیں’۔ شاید پاک چین تعلق پر بھی یہ مقولہ کسی قدر صادق آتا ہے۔

حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو امریکا اگر پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری، برابری اور مسابقت کی پالیسی اختیار کر بھی لے ،خنجر اب پاس کے افُق پر ‘چین ہم تمہارے ساتھ ہیں’ کے الفاظ جگمگاتے رہیں گے اور دریائے ہنزہ کی لہروں پر ان کا عکس جھلملاتا رہے گا۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved