امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے پہلی مرتبہ ایرانی جنرل کے قتل کے آپریشن کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
العربیہ نیوز دبئی کو خصوصی انٹرویو میں پومپیو نے کہا کہ امریکا نے قاسم سلیمانی کو اس لیے مارا کہ وہ امریکی عوام کے لیے خطرہ تھا۔ سلیمانی 500 امریکیوں کو مارنے کی سازش میں ملوث تھا اس لیے امریکی صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) نے حکم دیا کہ سلیمانی کو ختم کر دو۔
سابق امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ القدس بریگیڈ کی نگرانی کرتے امریکی حکام سلیمانی کو قتل کے منصوبے پر مسلسل کام کر رہے تھے تاکہ اسے وسائل، اثاثوں اور شہریوں پر حملے کا موقع نہ ملے۔ امریکی افواج کی 3 ٹیمیں، جو ایک رپورٹ کے مطابق مینٹیننس ورکرز کے بھیس میں گاڑیوں میں تھیں، بغداد کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر خفیہ مقامات پر ہدف یعنی قاسم سلیمانی کی نقل وحرکت کا انتظار کر رہی تھیں۔
تینوں اسنائپرز ٹیمیں ایئرپورٹ والی سڑک پر ہدف کے روٹ سے 600 سے 900 گز کے فاصلے پر تعینات تھیں۔ دمشق سے آنے والی پرواز 3 جنوری 2020ء کو آدھی رات کے بعد مقررہ وقت سے کئی گھنٹے تاخیر سے اتری جس کے بعد فضا میں موجود ہیل فائر میزائلوں سے لیس تین امریکی ڈرونز نے ایئرپورٹ کو گھیرے میں لے لیا۔
جونہی قاسم سلیمانی طیارے سے اترے تو ایک کرد آپریٹر نے فوری طور پر ان کی شناخت کی۔ سلیمانی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دو گاڑیوں میں سوار ہوئے ہی تھے کہ ان پر ڈرون سے حملہ کر دیا گیا۔ اس دوران اسنائپرز بھی ان کو نشانہ بناتے رہے تھے۔
تین جنوری 2020ء کے روز ہی امریکی حکام نے اعلان کیا کہ انہوں بغداد میں ایک خصوصی آپریشن کے دوران ایرانی جنرل قاسلم سلیمانی کو قتل کر دیا ہے۔