دنیا سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن پاکستان کسی تنازع میں فریق نہیں بنے گا، وزیر خارجہ

9  دسمبر‬‮  2021

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ اور کشمکش بڑھتی جا رہی ہے، دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن پاکستان نے فیصہ کیا ہے کہ کسی عالمی یا علاقائی تنازع  کا حصہ نہیں بنیں گے۔

اسلام آباد – (اے پی پی): اسلام آباد کی انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں ایک پر امن و خوشحال جنوبی ایشیاء کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کثیرالقومیت کے نظریہ کو تنہائی پسندی یا یک طرفہ سوچ کی قوتیں توڑ رہی ہیں۔ممالک قوم پرستانہ ایجنڈوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ طاقت کا اظہار ایک نیا معمول بنتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ اور کشمکش بڑھتی جارہی ہے اور وہ تصادم کی طرف جا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں نئی مخالفتیں اور رقابتیں جنم لے سکتی ہیں،  جو کہ  دنیا کو پھر سے دھڑوں کی سیاست کی نذر کررہی ہیں۔ ایک نئی سردجنگ کا ظہور ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ہتھیاروں کے انباروں میں اضافہ اور نئی ابھرتی ہوئی جنگی ٹیکنالوجی سے حربی امور کے بنیادی تقاضے ہی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جارحانہ جنگی نظاموں کے منظر عام پر آنے، اشتعال انگیز نظریات کی رونمائی اور جارحانہ جنگی قوت کا اظہار، کشیدگیوں کو بڑھانے اور فوجی مہم جوئی جیسے عوامل، پہلے سے سٹریٹجک عدم استحکام کے شکار ہمارے خطے کیلئے مزید خطرات کا موجب بن رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں سٹریٹجک استحکام کے لئے جوہری صلاحیتوں سے متعلق متفقہ طور پر طے شدہ پابندیاں اور روایتی افواج ناگزیر ہیں۔جنوبی ایشیا دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کا مسکن ہے جہاں ’نیٹ سکیورٹی پروائیڈر‘ جیسے نظریات کا فروغ پانا، خطے کے دیگر ممالک کے جائز سیاسی، معاشی اور سلامتی کے مفادات سے کلیتاً صرف نظر کرنا ہے۔

کشمیر جوہری فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے

کشمیر سے متعلق اپنے خطاب میں  وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر تنازع جموں وکشمیر ایک دیرینہ اور قدیم ترین مسئلے کے طورپر موجود ہے جو تاحال کشمیر کے بہادر عوام کی امنگوں کے مطابق حل کا منتظر ہے۔ اس قضیہ کی آگ جوہری “فلیش پوائنٹ” میں بدلنے کا احتمال رکھتی ہے جو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے تباہ کن ہوگا۔یہ خطہ چین اور بھارت کے درمیان جنگی محاذ آرائی، نیپال اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے اور بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان آبی تنازعے کا مشاہدہ بھی کرچکا ہے۔

پاکستان نے اپنی توجہ جیو اکنامکس کی طرف مرکوز کر رکھی ہے

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سری لنکا نے اپنی تاریخ کے 25 سال خونریز بغاوت کا سامنا کیا ہے۔ افغانستان چار دہائیوں سے تنازعے سے گزرتا آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں قومی سلامتی حکمت عملی میں انسانی سلامتی کو مرکزیت دینے کی ضرورت ہے۔ یعنی سلامتی پر مبنی پالیسیز سے خطے میں ترقی اور خوش حالی کی طرف جانا ہوگا۔ یہ ہے وہ حقیقی چیلنج جس کا آج جنوبی ایشیا سامنا کررہا ہے۔ پاکستان نے اپنی توجہ تبدیل کرکے جیواکنامکس کی طرف مبذول کی ہے۔خطے کو جوڑنا آج کا وہ لفظ ہے جسے مرکزیت ومقبولیت حاصل ہے۔ یہ ہمیں قومی اور علاقائی ترقی کے لئے بے پناہ مواقع فراہم کرسکتا ہے۔پاکستان کراچی اور گوادر بندرگاہوں کے ذریعے چین کے مغربی حصوں اور وسط ایشیائی جمہوریتوں کی عالمی سمندروں تک رسائی کا مختصر ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اور چین کی سدا بہار سٹرٹیجک کوآپریٹو شراکت داری کا طرہ امتیاز چین پاکستان اقتصادی راہداری رابطوں کی استواری کا ایک بہترین اور مثالی منصوبہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ’سی پیک‘ خطے کو جوڑنے کیلئے بھی ایک اہم راستہ ہے۔جنوبی ایشیا کی خوش حالی کے لئے خطے میں علاقائی تعاون لازم ہے۔

سارک کو تنگ نظر سیاسی ایجنڈوں سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سارک کو تنگ نظر سیاسی ایجنڈوں سے آزاد کرکے زندہ وفعال کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے خطے کے اندر تجارت انتہائی کم ہے، تجارت، شاہراتی نظام اور رابطوں میں حائل رکاوٹیں اور پابندیاں دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے کسی عالمی یا علاقائی تنازعے کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے اور صرف امن وترقی میں شریک کار رہنے کی راہ منتخب کی ہے۔ پاکستان اجتماعیت اور تعاون کی حامل سوچ وفکر پر مبنی وسیع تر معاشی واقتصادی شراکت داری پر زور دے رہا ہے۔بہت سارے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو معاشی سٹرکچرل وجوہات سے پیدا ہونے والے بہت سارے غیرروایتی سکیورٹی مسائل کا سامنا ہے جن میں ماحولیاتی تغیر، غذا، توانائی اور آبی بحران، آبادی میں اضافے، بے محابہ شہروں کے بڑھنے اور غربت جیسے مسئلے شامل ہیں۔ نہایت فوری نوعیت کی تشویش کا باعث بننے والا مسئلہ، ماحولیاتی تغیر کا ہے جس کے براہ راست اثرات غذا اور آبی سلامتی پر ہوتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ عمران خان حکومت قومی سلامتی کے لیے، لاحق اس سنگین خطرے کا اداراک کرتے ہوئے ان اثرات کو کم سے کم کرنے کے لئے کوششیں کررہی ہے۔ تجارت وسرمایہ کاری، انفراسٹرکچر کی ترقی، انرجی سکیورٹی، زراعت، سیاحت میں تعاون اور عوامی رابطوں میں اضافہ ہماری ترجیحات ہیں۔ ہماری بنیادی دلچسپی پرامن اور مستحکم ’عالمی نظم‘ (انٹرنیشنل آرڈر) ہے جو سب کو اعتماد میں لے کر چلے۔پاکستان پرامن بقائے باہمی، تعاون پر مبنی کثیرالقومیت اور اتفاق رائے کی حامل فیصلہ سازی کے اصولوں کے عزم پر کاربند ہے۔

گلوبل آرڈر کی حمایت جاری رکھیں گے

وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے اور دنیا میں امن، ترقی اور خوش حالی کے مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے ہم اجتماعیت کے حامل عالمی نظام (گلوبل آرڈر) کی حمایت ہمیشہ جاری رکھیں گے۔ ہم بیانیوں کے دور میں جی رہے ہیں۔ پاکستان کے بیانیوں کی تشکیل اور ان کا فروغ ہم سب کے لئے ایک قومی ذمہ داری ہے۔ فیصلہ سازوں اور محقیقین کے درمیان خلیج کو پاٹنا ہوگا اور اتفاق رائے کے حامل بیانیوں کو پیش کرنا ہوگا ۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved