وزیر خارجہ کی او آئی سی اجلاس کے متعلق ٹی وی اینکرز اور نیوز ایڈیٹرزکو بریفنگ

16  دسمبر‬‮  2021

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ میں اہم ٹی وی اینکرز اور نیوز ایڈیٹرز کو افغانستان کی صورتحال اور او آئی سی کے 17 ویں وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی ہے۔

وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق آج کے اجلاس کا مقصد او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے آپ کو آگاہ کرنا تھا، جس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے خصوصی شرکت کی۔

 

پڑوسی ملک نے پاکستان پر پابندیاں لگانے کیلئے مہم چلائی

میڈیا نمائندوں کے ساتھ بریفنگ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ  پاکستان میں ایک طویل عرصے کے بعد 19 دسمبر کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ 15 اگست کے بعد افغانستان میں جو تبدیلی رونما ہوئی اور اس کے بعد اس تبدیلی کے حوالے سے کئی خدشات سامنے آئے ہیں۔ ہمارے پڑوسی  ملک نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے “سینکشن پاکستان” کی میڈیا مہم چلائی، اللہ کے کرم سے ان کا جھوٹ بے نقاب ہوا اور ہمارے میڈیا نے اس جھوٹ کو بے نقاب کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

 

انہوں نے کہا کہ  اس وقت افغانستان میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، 15 اگست کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ صورتحال مزید خراب ہوئی تو افغانستان میں خانہ جنگی اور مہاجرین کی یلغار کا خطرہ بہت حد تک بڑھ جائے گا۔ کابل ائیرپورٹ کے مناظر ساری دنیا نے دیکھے،  ہزاروں لوگ وہاں انخلاء کے منتظر تھے، پاکستان نے انخلاء کے عمل میں بھرپور معاونت فراہم کی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔

افغانستان سے مہاجرین کی یلغار کا خطرہ سر اٹھا رہا ہے

وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورہ برسلز کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برسلز میں مجھے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل سے ملاقات کا موقع ملا، جن کے ساتھ افغانستان کی مخدوش معاشی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ میں نے واضح کیا کہ اگر افغانستان کی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے مضمرات نہ صرف خطے  بلکہ یورپ کیلئے بھی ضرر رساں ہوں گے۔

 

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کے معاشی و انسانی بحران کے سبب مہاجرین کی یلغار کا خطرہ پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ پاکستان، نے 15 اگست کے بعد افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک سے رابطہ اور مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے افغانستان کے چھ قریبی ہمسایہ ممالک کا فورم تشکیل دیا۔ اس فورم کا پہلا  ورچول اجلاس پاکستان جبکہ دوسرا تہران میں ہوا جبکہ تیسرا بیجنگ میں متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ماسکو فارمیٹ میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا،  ہم نے ٹرائیکا پلس کے فورم کے ذریعے افغانستان کی صورتحال پر اپنا موقف پیش کیا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ  ہم نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ، اقوام متحدہ کی ایجنسیز، پی 5،اور اہم یورپی ممالک کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا ہے۔

 

2022ء تک 97 فیصد افغان شہری غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم کسی ایک طبقے کی بات نہیں کر رہے بلکہ لاکھوں افغان شہریوں کی بات کر رہے ہیں جو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ یو این ڈی پی کے مطابق 2022ء  کے وسط تک 97 فیصد افغان سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق محض 5فیصد افغانوں کو مناسب خوراک میسر ہے۔ افغانستان میں بینکنگ سسٹم کی عدم دستیابی کے باعث افغانستان سے باہر مقیم لوگ، چاہتے ہوئے بھی، افغان شہریوں کی کوئی معاشی مدد بھیجنے سے قاصر ہیں۔ ہم سعودی عرب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بطور چیئرمین، او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس برائے افغانستان کی تجویز کو پذیرائی دی اور پاکستان کو میزبانی کا شرف بخشا۔

 

او آئی سی اجلاس کا ورکنگ سیشن ان کیمرہ ہو گا

وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس کے متعلق بتایا کہ کل سے مہمان وفود پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے،  آج سیکرٹری جنرل او آئی سی تشریف لائیں گے،  19 دسمبر  کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے تین سیشن ہوں گے، جن میں  ابتدائی اور اختتامی سیشن اوپن جبکہ ورکنگ سیشن ان کیمرہ ہو گا۔ عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ نکات پر تشویش ہے۔ جن میں افغانستان میں انسانی حقوق کی پاسداری، دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کی ضمانت اور محفوظ انخلاء جیسے نکات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عالمی برادری کے خدشات، افغان عبوری قیادت تک پہنچائے اور انہیں باور کروایا کہ انہیں عالمی برادری کے خدشات کو دور کرنا ہو گا۔

 

دوسری طرف ہم نے عالمی برادری کو بھی باور کروایا کہ وہ نوے کی دہائی کی غلطی نہ دہرائے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں صورتحال قابو میں نہ آئی تو یہ سب کیلئے خطرے کا موجب ہو گی۔ آج افغان عبوری حکومت کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے وسائل موجود نہیں۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ اس اجلاس میں ہم نے افغان وفد کو بھی مدعو کیا ہے تاکہ وہ اپنا موقف خود پیش کر سکیں اور صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے 11 اہم کمانڈرز اور سابق سفرا، جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، وہ اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، ان کی مدد کی جائے۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ روس اور امریکہ نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں اپنے نمائندوں کو بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved