ترک صدر رجب طیب اردوان نے غیر ملکی معاشی ماہرین کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی تجاویز مسترد کرنے کے باوجود امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کنٹرول کر لی ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے معاشی پابندیوں کے مطلوبہ نتائج نہ ملنے کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیر قانونی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ترکی کی مارکیٹ میں ڈالر کی قلت پیدا کی گئی تھی۔ ڈالر کی قدر میں تاریخی اضافے کے بعد معاشی معاہرین نے ترک صدر کو شرح سود میں اضافے کا مشورہ دیا۔ لیکن ترک صدر نے دشمن کی چال کو سمجھتے ہوئے شرح سود میں اضافے سے صاف انکار کر دیا، اور ایک چیلنج کے طور پر امریکی ڈالر کی قیمت کم کرنے کی ٹھان لی۔
امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کنٹرول کرنے کیلئے ترک صدر نے فوری طور پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کر دی، اس اعلان کے اگلے روز ہی ذخیرہ اندوز اپنے ڈالر فروخت کرنے ترکش بینکوں میں پہنچ گئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر فروخت کرنے والوں کی قطاریں لمبی ہونا شروع ہو گئیں۔
ترک میڈیا کے مطابق امریکی ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں خریدوفروخت پر پابندی کے اگلے روز صرف پہلے کاروباری گھنٹے کے دوران ایک ارب امریکی ڈالر ترکش بینکوں میں آ چکے تھے، اور ان کی بڑے پیمانے پر خریداری ابھی جاری تھی۔ ترک صدر نے شرح سود میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مہنگائی کی شرح پر 4 فیصد پر فکس کرنے کا اعلان کر دیا، اور کہا کہ میں اپنی عوام کو بھاری سود ریٹ اور مہنگائی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔
دوسری جانب ترک صدر نے گھریلو سیونگز کو غیر ملکی کرنسی میں رکھنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کئے ہیں کہ تاجروں کو اپنی برآمدات امریکی ڈالر کے مستحکم ریٹ پر طے کرنے کا پابند کیا جائے، اور ڈالر کی غیر قانونی سمگلنگ پر بھی کڑی نظر رکھی جائے۔
ترک صدر کے اقدامات سے ڈالر کی غیرقانونی ذخیرہ اندوزی کی سخت حوصلہ شکنی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں موجود اربوں امریکی ڈالر ترکش بینکوں میں آ گئے ہیں، اور ڈالر کا ریٹ مستحکم ہو گیا ہے۔
طیب اردوان کے ہنگامی اقدامات کی بدولت 3 روز قبل 18 ترکش لیرے میں ملنے والا امریکی ڈالر اب 11.5لیرے پر آ گیا ہے، ترک صدر نے عوام کے نام پیغام میں کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے، اور بہت جلد حالات معمول پر آ جائیں گے۔