افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان کابل میں داخل نہ ہونے کیلئے رضا مند تھے، لیکن 15 اگست کو حالات تبدیل ہو گئے، اور طالبان کی دھڑوں نے کابل شہر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی، پھر میں نے کابل کو خونریزی سے بچانے کیلئے وہاں سے روانگی کا فیصلہ کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ جب وہ 15 اگست کی صبح اٹھے تو ان کے گمان بھی نہیں تھا کہ یہ افغانستان میں ان کا آخری دن ہو گا۔انہوں نے کہا کہ طالبان جنگجوؤں نے کابل میں داخل نہ ہونے پر آمادگی ظاہر کی تھی، لیکن دو گھنٹے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اشرف غنی کا کہنا تھا کہ طالبان کے دو مختلف دھڑے دو مختلف سمتوں سے کابل کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے، اور ان کے درمیان ممکنہ کشیدگی کے باعث پچاس لاکھ آبادی والا شہر تباہی کا شکار ہو سکتا تھا اور عوام ایک بہت بڑے المیے سے گزر سکتے تھے۔
سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ اور قومی سلامتی کے مشیر کے ہمراہ کابل چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ ایک گاڑی کا انتظار کرتے رہے جس نے انہیں وزارت دفاع چھوڑ کر آنا تھا، لیکن طویل انتظار کے بعد بھی گاڑی نہیں آئی، اس دوران قومی سلامتی کے مشیر صدارتی محل کے گھبرائے ہوئے چیف سکیورٹی افسر کے ہمراہ واپس آئے اور مجھے کہا کہ اگر آپ نے یہاں رکنےکا فیصلہ کیا تو ہم سب مارے جائیں گے۔
"On that morning, I had no inkling that I would be leaving"
Former President of Afghanistan, Ashraf Ghani, says he made a sudden decision to flee his country in August. He's been speaking to our guest editor, General Sir Nick Carter.
Listen: https://t.co/RN3Us2defB#R4Today pic.twitter.com/HDYiiFbDih
— BBC Radio 4 Today (@BBCr4today) December 30, 2021
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ میری ہدایات یہ تھیں کہ مجھے خوست شہر لے جایا جائے، لیکن مجھے بتایا گیا کہ خوست اور جلال آباد بھی طالبان کے قبضے میں آ چکے ہیں، مشیر نے مجھے دو منٹ سے زیادہ کا وقت بھی نہیں دیا، انہوں نے کہا کی مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم کہاں جائیں گے۔ یہ صرف اس وقت واضح ہوا جب ہم نے پرواز بھری، کہ ہم افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ تو یہ سب کچھ بہت جلدی میں ہوا۔ اشرف غنی کا کہنا تھا پرواز کرتے ہوئے مجھے یقین ہوا کہ ہم افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
سابق افغان صدر نے بھاری رقم ساتھ لیکر جانے کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے سے بین الاقوامی تحقیقات کا خیر مقدم کریں گے تاکہ ان پر لگایا گیا الزام غلط ثابت ہو سکے۔