امریکا اور برطانیہ کے حوثیوں کے ایک درجن سے زیادہ ٹھکانوں پر فضائی حملے

25  فروری‬‮  2024

امریکا اور برطانیہ نے یمن میں حوثی باغیوں کے ایک درجن سے زیادہ ٹھکانوں پر فضائی حملے کردئیے۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یہ کارروائی اس وقت سامنے آئی جب حوثی گروپ نے غزہ میں اسرائیل کے تنازع کے جواب میں بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیے تھے۔

24 فروری کو مشترکہ طور پر جاری کردہ ایک بیان میں امریکا اور برطانیہ نے اعلان کیا کہ ان کی فوجی کارروائی میں یمن میں 8 مقامات پر حوثیوں کے 18 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، اس میں زیر زمین ہتھیاروں اور میزائلوں کے ذخیرہ کرنے کی تنصیبات، فضائی دفاعی نظام، ریڈار اور ایک ہیلی کاپٹر پر حملے شامل ہیں۔

حالیہ آپریشن 12 جنوری سے حوثیوں کے خلاف امریکی اور برطانیہ کی فوج کے مشترکہ حملوں کی چوتھی مثال ہے۔

حالیہ حملہ 12 جنوری کے بعد سے چوتھا حملہ تھا جب امریکی اور برطانیہ کی فوج نے حوثیوں کے خلاف مشترکہ حملے کیے۔

امریکا حوثی اہداف کو ختم کرنے کے لیے تقریباً روزانہ حملے مار رہا ہے، جس میں میزائل، راکٹ اور ڈرون شامل ہیں جن کا مقصد تجارتی اور بحریہ کے جہاز کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کوششوں کے باوجود امریکا اور برطانیہ حوثیوں کے حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، جس سے عالمی تجارت متاثر ہوئی ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ حملوں کا مقصد ’ایرانی حمایت یافتہ حوثی میلشیا کی صلاحیتوں کو مزید متاثر کرنا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم حوثیوں کو یاد دلاتے رہیں گے کہ اگر انہوں نے اپنے غیر قانونی حملے بند نہیں کیے تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ حملے مشرق وسطیٰ کی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یمن اور دیگر اقوام کو انسانی امداد کی ترسیل میں خلل ڈالتے ہیں۔‘

آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا، ڈنمارک، نیدرلینڈز اور نیوزی لینڈ نے حملوں کی حمایت کی۔

حوثیوں کا جوابی وار

حوثیوں نے امریکی-برطانوی جارحیت کی مذمت کی اور اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم کیا۔

ایک بیان میں یمنی مسلح افواج نے کہا کہ وہ اپنے ملک، عوام اور قوم کے دفاع کے لیے بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں تمام دشمن اہداف کے خلاف مزید فوجی کارروائیوں کے ساتھ امریکی-برطانوی کشیدگی کا مقابلہ کریں گے۔

حوثی باغیوں نے 19 نومبر سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں تجارتی اور فوجی دونوں جہازوں پر کم از کم 57 حملے کیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان حملوں کی تعدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved