حکومت کو کسی بھی وقت گرایا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی

2  مئی‬‮  2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سینیٹر علی ظفر نے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کو کسی بھی وقت گرایا جاسکتا ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے تحت عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کی جاسکتی ہے مگر جج کی ذات پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ حکومت ختم کرنے کے بہت سارے آئینی طریقے ہیں، ہماری حکومت بھی آئینی طریقے سے ختم ہوئی، عدم اعتماد کا ووٹ ہوا۔

پی ٹی آئی سینیٹر نے مزید کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی ہے، خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخاب کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بھی پی ٹی آئی بڑی جماعت ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ کوئی وزیراعلیٰ کہتا ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے تو یہ غیرآئینی ہوگا اسکی مخالفت کروں گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ آئینی طریقے سے کسی وقت بھی حکومت تبدیل ہوسکتی ہے۔سینیٹر علی ظفر نے یہ بھی کہا کہ علی امین گنڈاپور کا انداز گفتگو ایسا ہے لیکن انہوں نےاُس ویڈیو میں اسلام آباد پر چڑھائی کی بات نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ نائب وزیراعظم کے عہدے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، اسحاق ڈار کو عہدہ دے کر خوش کیا گیا ہے، اگر یہ بات ہے تو یہ پارٹی کا اندرونی مسئلہ ہے۔

پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ ن لیگ کے اندرونی معاملے سے تحریک انصاف کو کوئی لینا دینا نہیں، پارٹیوں کے اندرونی معاملہ اندرونی ہی رہنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے پر تنقید ہوسکتی ہے اس پر کوئی قدغن نہیں، آئین میں جج کی ذات پر تنقید کی کوئی گنجائش نہیں، نام لے کر جج کی ذات پر تنقید کرنا غیرقانونی ہے ایکشن لیا جاسکتا ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ججوں پر تنقید اب ختم ہونی چاہیے، فیصلے پر تنقید ہوسکتی ہے، آپ یہ تنقید کرسکتے ہیں کہ فلاں کیس کیوں نہیں لگ رہا۔

انہوں نے کہا کہ چھ ججوں کے خط کا معاملہ حساس اور اہم ہے، واقعی آزاد عدلیہ چاہیے تو پھر کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوسکتی۔

پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ بھٹو کا کیس دیکھ لیں ججوں نے کتابوں میں لکھا کہ کیا پریشر تھا، بینظیر بھٹو کے خلاف کیس میں کس طرح وزیر قانون نے مداخلت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ مثال دیکھ لیں جب سپریم کورٹ پر ایک سیاسی جماعت نے حملہ کیا تھا، تمام ہائیکورٹس نے کہا ہے کہ ایک خاص قسم کی مداخلت ہو رہی ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ چیف جسٹس کے ریمارکس بھی درست ہیں کہ ججز کو پریشر برداشت کرنا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں تاکہ مداخلت کم ہوجائے۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved