29 جولائی کو پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت دی جائے، عدالت کی انتظامیہ کو ہدایت

26  جولائی  2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی آج اسلام آباد میں احتجاج کی کے حوالے سے دائر درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ 29 جولائی کو ایف نائن پارک میں پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت دے دی جائے۔

پی ٹی آئی نے آج اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت لینے کے لیے درخواست دائر کی تھی جس کی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جج جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سماعت کی۔

ہائی کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا 18 جولائی سے دو ماہ کے لیے دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ ہے اور 29 جولائی کو احتجاج کی اجازت تب ہی ہو سکتی ہے اگر باقی سیاسی جماعتوں کی جانب سے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔

عدالت نے کہا کہ مناسب پابندیوں کے ساتھ آئین میں پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے اور کسی اور سیاسی جماعت کے تھریٹ کی بنا پر پٹشنر پارٹی کے آئینی حقوق سلب نہیں کیے جا سکتے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے کہا کہ 29 جولائی ایف نائن پارک میں احتجاج کی اجازت دے دی جائے اور حلف نامہ جمع کرایا ہے کہ احتجاج پرامن ہو گا، کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال نہیں بنے گی۔

اس سلسلے میں کہا گیا کہ اسٹیٹ کونسل احتجاج کی اجازت نہ دینے کی وجوہات سے متعلق مطمئن نہیں کر سکی اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پی ٹی آئی کی 29 جولائی کو احتجاج کی درخواست پر وجوہات کے ساتھ فیصلہ کریں۔

عدالت نے کہا کہ آج احتجاج عملاً اب ممکن نہیں اس لیے پی ٹی آئی کی پٹیشن نئی درخواست تصور ہو گی اور 29 جولائی کو ایف نائن پارک یا کسی مناسب جگہ احتجاج کی درخواست پر فریقین باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے فیصلہ کریں۔

سماعت میں کیا ہوا؟

پی ٹی آئی کی آج اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت لینے کے لیے دائر درخواست پر دوبارہ سماعت ہوئی، جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے پی ٹی آئی رہنما عامر مغل کی درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے شعیب شاہین پیش ہوئے جب کہ ایڈووکیٹ جنرل بھی عدالت میں آئے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آج اسلام آباد میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا احتجاج ہے، ان سے ہم نے کہا کہ پریس کلب نہ سہی تو ایف نائن پارک میں احتجاج کی اجازت دے دیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جماعت اسلامی کے دھرنے کی وجہ سے پورا اسلام آباد بند ہے، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جماعت اسلامی کو اجازت دی ہے؟

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے استفسار کیا کہ میں پیر کا بتارہی ہو، آپ کیوں اجازت نہیں دے رہے؟ عدالت نے سوال اٹھایا کہ یہ کیوں احتجاج نہیں کرسکتے؟ دھرنوں سے ان کے احتجاج کا کیا تعلق ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جماعت اسلامی نے دھرنے کا اعلان کیا ہوا، جمعیت علمائے اسلام سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آرہے ہیں، شعیب شاہین نے کہا کہ ٹی ایل پی نے بغیر اجازت دھرنا دیا تو ان کے ڈی آئی جی نے وہاں نعرے لگائے کہ ہمارا کاز ایک ہے، یہ دفعہ 144 گزشتہ ایک سال سے ہے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ دفعہ 144 میں جو جگہ اپ نے لکھے ہیں، اس میں ایف نائن پارک کا علاقہ تو آتا نہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم نے پورے اسلام آباد کو بند کیا ہوا ہے، ریڈ زون کو واضح کیا ہے، باقی پورا اسلام آباد بند ہے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ فیض آباد کا دھرنا کب ہوا تھا ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے ان کو اجازت نہیں دی تھی، وہ زبردستی گھس کر بیٹھ گئے تھے۔

شعیب شاہین نے استدلال کیا کہ ٹی ایل پی عاشورہ کے دنوں میں فیض آباد بیٹھے رہے، ہمارے الیکشن سے پہلے کی دفعہ 144 لگی ہوئی ہے، عدالت نے کہا کہ بات دفعہ 144 کی نہیں، بات سیاسی جماعت کو احتجاج کا حق نہ دینے کی ہے۔

شعیب شاہین نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں اجازت دیں، ہمارے کارکنان پھر بھی آئیں گے بے شک کم ہوں گے، فیصلے موجود ہیں کہ یہ راستوں کو بند کر نہیں سکتے۔

عدالت نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کو دھرنے کی اجازت نہیں دی ہوئی مگر وہ پھر بھی آرہے ہیں، ایک جماعت نے اعلان کیا ہے تو آپ کو اجازت سے مسئلہ نہیں ہوگا؟

شعیب شاہین نے کہا کہ احتجاج میں ہمارے لوگ شہر کے اندر سے آئیں گے، کوئی مسلہ نہیں ہوگا، عدالت نے کہا کہ میں کیسے اخذ کروں یا مان لوں کہ آپ کے لوگ باہر سے نہیں آئیں گے۔

شعیب شاہین نے دلیل دی کہ ہمیں ایسی جگہ دیں کہ ہمارے کارکنان بھی آئے اور نہ ہی ان کو کوئی مسئلہ ہو، عدالت نے کہا کہ پریس کلب کا ایریا ایسے ہی چیزوں کے لیے ہوتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم نے ان سے کہا تھا کہ آپ کو اجازت دیں اور باقیوں کو اجازت نہ دیں تو مسئلہ ہوگا، ہم نے ان سے درخواست کی تھی کہ آپ لوگ آج احتجاج نہ کریں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب پیر کی بات ہورہی ہے تو تب کیا مسئلہ ہے، اگر آج جیسے حالات پیر کو بھی ہوئے تب تو پیر کو بھی احتجاج نہیں ہوسکتا۔

عدالت نے کہا کہ ایسے حالات کیوں ہوں گے، آپ حکومت ہیں اور آپ ہی کی ذمہ داری ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ یا حکومت اتنی غیر محفوظ کیوں سمجھ رہی ہے؟ ہمارے اردگرد دشمن ہیں، اگر آپ کی بے بسی کا ان کو پتا چلا تب کیا ہوگا؟

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ دشمن سے نمٹا جاسکتا ہے اپنوں سے نہیں، فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیش نظر حکومت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ریڈ زون کو سیل کردیا ہے۔

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے کل ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا تھا کہ عمران خان نے سب کو یہ پیغام دیا کہ کل کی جو کال تحریک تحفظ آئین نے دی ہے اس کو کامیاب بنائیں، پر امن احتجاج کریں، ہمارے احتجاج ہمیشہ پر امن رہے ہیں۔

اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ریڈ زون کو سیل کردیا ہے۔

ریڈ زون کو سیل کرنے کے لیے اسلام آباد کے نادرا چوک، سرینا چوک، ایکس پریس چوک پر کنٹینرز پہنچا دیے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دارالحکومت میں دفعہ 144 کے نفاذ سے کسی احتجاج کی اجازت نہیں۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved