جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں آئینی بینچوں کے ججز کی نامزدگی نہ ہو سکی، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی پیش کردہ تجویز کی توثیق کر دی گئی جس کے تحت 24 نومبر تک سندھ ہائی کورٹ کے تمام ججز آئینی بنچوں کے مقدمات کی سماعت کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا دوسرا اجلاس سپریم کورٹ میں آج دوپہر 2 بجے منعقد ہوا۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل کے واحد ایجنڈے پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل (بذریعہ ویڈیو لنک) نے شرکت کی۔
اس کے علاوہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان، سینیٹر فاروق حامد نائیک، سینیٹر سید شبلی فراز، رکن قومی اسمبلی شیخ آفتاب احمد، رکن قومی اسمبلی عمر ایوب خان، روشن خورشید، وزیر قانون سندھ ضیا الحسن لنجار اور سندھ بار کونسل کے رکن قربان علی ملانو بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے بھی بطور کمیشن سیکریٹری شرکت کی۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں ایجنڈے پر وسیع تبادلہ خیال کیا گیا اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے ہائی کورٹ کے تمام موجودہ ججوں کو آئینی بنچوں کے ججوں کے لیے نامزد کرنے کی تجویز پیش کی گئی تاکہ مقدمات کے موجودہ بڑے بیک لاگ کو تیزی سے نمٹایا جا سکے، جس کی جوڈیشل کمیشن نے اتفاق رائے سے توثیق کردی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ججز کے ناموں پر غور کیا گیا ہے، 25 نومبر تک سندھ ہائی کورٹ کے تمام ججز آئینی مقدمات سن سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس مندوخیل کی فلائیٹ کی وجہ سے وہ کچھ دیر اجلاس میں شامل ہوئے، ممبر اختر حسین کی اہلیہ علیل ہونے کی وجہ سے وہ بھی شامل نہ ہوئے۔
اعلامیے کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے تمام ججز آئینی بنچوں کے لیے 24 نومبر تک کام جاری رکھ سکیں گے، جوڈیشل کمیشن کا آئندہ اجلاس 25 نومبر کو ہوگا۔
واضح رہے کہ 5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔
26 ویں ترمیم کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا پہلا اجلاس ہوا تھا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔
جسٹس امین الدین کی تقرری کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا مشورہ دیا تھا، اجلاس کے دوران آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر ووٹنگ کرائی گئی، کمیشن کے 12 میں سے 7 ارکان نے 7 رکنی آئینی بینچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔