وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اورعمران خان کا ایک صفحے پرہونا ملک کے لئے فائدہ مند ہے، فوج اور حکومت کی سوچ میں اختلاف ہوسکتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کوانٹرویو میں وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ فوجی قیادت نے منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔سول حکومت اورفوج کے درمیان چھوٹے چھوٹے اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ وہ ایک صفحے پرنہ ہوں۔شیخ رشید نے مزید کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ عمران خان اورفوجی قیادت کے تعلقات خراب ہوں لیکن نہ اسٹیبلشمنٹ بھولی ہے اور نہ ہی عمران خان بھولا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے نظر آتا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات لے جاتے وقت شاید درست تیاری نہیں کی گئی، چوروں، ڈاکووں، کرپٹ اور بددیانت لوگوں کو قانون کو گرفت میں لانے کے لیے عمران خان کو ووٹ ملے، احتساب عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا مگر ہمیں وہ کامیابی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔برطانیہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں مقیم ملزمان اور مجرموں کو واپس لانے کے لیے معاہدے کی کوشش کی جا رہی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ نواز شریف واپس آ جائیں، نواز شریف کو ہم نے خود بھیجا یہ ہماری ہی غلطی ہے۔
انہوں نے کہا کہ احتساب عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا مگر اس میں ہمیں وہ کامیابی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔شیخ رشید کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ ان افراد کو وطن واپس لایا جائے جو پاکستان میں عدالتوں اور حکومت کو مطلوب ہیں تاہم انھیں یہ شکایت بھی ضرور ہے کہ بہت سی کوششوں کے باوجود وہ تاحال اسحاق ڈار کی واپسی بھی ممکن نہیں بنا سکے۔شہزاد اکبر سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ ان کے استعفی اور وزیر اعظم کی ان سے ناراضگی کی وجہ محض نواز شریف یا شہباز شریف کو واپس لانا ہی نہیں بلکہ ہم پیسے بھی تو واپس نہیں لا سکے۔’اربوں کی کرپشن ہوئی۔ ایک ایک ملازم کے اکاونٹ سے چار چار ارب روپے برآمد ہو رہے ہیں۔ صرف شہباز شریف پر 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے لیکن ہم ان کے پیسے بھی نہیں لا سکے۔
شیخ رشید احمد نے یہ بھی کہا کہ ٹی ٹی پی کی مذاکرات کی شرائط ایسی تھیں جو پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اس وقت مذاکرات نہیں ہو رہے، سیز فائر کی خلاف ورزی کے بعد مذاکرات کا دروازہ تقریباً بند ہو چکا ہے۔ یہ معاہدہ تحریک طالبان پاکستان نے خود ختم کیا۔ ایک آدھ بار بات ہوئی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔