ججوں، بیوروکریٹس، افسران کیلئے خصوصی پلاٹس غیر قانونی اور مفاد عامہ کے خلاف ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

3  فروری‬‮  2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ججوں اور افسران کے پلاٹس کی سکیم غیرآئینی قرار دے دی، چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ صرف عوامی مفاد کے لیے ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ جج، بیورکریٹس، پبلک آفس ہولڈرز مفاد عامہ کے خلاف ذاتی فائدے کی پالیسی نہیں بنا سکتے جبکہ جج اور بیوروکریٹس اصل اسٹیک ہولڈر یعنی عوام کی خدمت کے لیے ہیں۔
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی آئین کے خلاف کوئی اسکیم نہیں بنا سکتی۔ عدالت نے سیکرٹری ہاؤسنگ کو 2 ہفتے میں فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعلی عدلیہ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کو پلاٹس کے بینفشری بنانے پر سوالات اٹھاتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ ہاوسنگ اتھارٹی سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں زیر التوا کیسز میں بنیادی فریق ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹس کے ججز کو وفاقی حکومت کا بینیفشری بنا دینا مناسب تھا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ 17 اگست 2021 میں ہوئی ایف 14،15 قرعہ اندازی میں شفافیت نہیں تھی، ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد ملازمین میں سے ایک لاکھ 26 ہزار کو نظرانداز کیا گیا، لگتا ہے وزیراعظم اور کابینہ کو اس کے اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے، کابینہ کے سامنے پیش کئے گئے ریکارڈ میں نہیں بتایا گیا الاٹمنٹس کیلئے سلیکشن کا طریقہ کار کیا تھا، اہم ترین پہلو یہ وفاقی کابینہ نے مفادات کے ٹکراو کو نظر انداز کر دیا، ایلیٹ کا خزانے اور عوام کو نقصان پہنچا کرامیر ہونا آئینی معاشرے میں ناقابل تصور ہے، پلاٹس کی الاٹمنٹ کا طریقہ کار میں شفافیت ثابت کرنے کیلئے کچھ نہیں دکھایا گیا، نظرثانی شدہ پالیسی میں وکلا اور صحافیوں کو نکال دیا جانا بھی قابل غور پہلو ہے۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved