وفاقی شرعی عدالت نےایک پٹیشن کو مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر قرار دیا کہ اسلامی ریاست کی طرف سے لڑکیوں کی شادی کیلئےکم از کم عمر کی کوئی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔وفاقی شرعی عدالت کے مطابق اس کا اطلاق لڑکے اور لڑکی دونوں کیلئے ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ چائلڈ میرج ایکٹ 1929ء میں نکاح کیلئےعمر کے تعین کے خلاف درخواست دائرکی گئی تھی جسے سماعت کے بعد خارج کر دیا گیا۔
وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فاروق عمر بھوجا کی جانب سے چائلڈ میرج ایکٹ کے سیکشن 4، 5، 6 کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت کی۔ وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور کی طرف سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست کی سماعت اور اس کی جانچ پڑتال کے بعد ہمارا خیال ہے کہ یہ پٹیشن غلط فہمی پر مبنی ہے، اس لیے اسے مسترد کیا جاتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے 10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ تعلیم خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ کسی بھی فرد کی ترقی اور اس کے نتیجے میں کسی بھی قوم کی آنے والی نسل کیلئے بہت اہم ہے۔اسی لیے اسلام نے تعلیم کے حصول کو ہر مسلمان مردوعورت کیلئے لازمی قرار دیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ علم کا حصول ہر مسلمان پر لازم ہے۔
فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ایک بہترین شادی کیلئے نہ صرف جسمانی صحت اور معاشی استحکام وغیرہ ضروری عوامل ہیں بلکہ ذہنی صحت اور فکری نشوونما بھی یکساں اہم ہیں جو تعلیم کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت نے کہا ہے کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929ء کے تحت لڑکی کی شادی کیلئے کم از کم عمر کی حد 16 سال مقرر کرنے سے لڑکیوں کو کم سے کم بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔